انیتا کریم: پاکستان کی ’ونڈر وومن‘ ایم ایم اے فائٹر کیوں بنیں؟

انیتا کریم: پاکستان کی ’ونڈر وومن‘ ایم ایم اے فائٹر کیوں بنیں؟

ویب ڈیسک: اگرچہ زیادہ تر پاکستانیوں کے لیےمکسڈ مارشل آرٹس جیسے کھیل کا نام نیا ہے تاہم یہ کھیل دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی بہت تیزی سے مقبول ہو رہا ہے ۔ مردوں کی موجودگی میں انیتا کریم جیسی لڑکیوں کا اس کی جانب راغب ہونا کئی دیگر خواتین کو بھی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینےکی ترغیب دیتا ہے۔ 

انیتا کریم پاکستان میں 300 سے زیادہ پیشہ ورانہ ایم ایم اے فائٹرز میں واحد خاتون ہیں۔ وہ گلگت بلستان کے علاقے ہنزہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انیتا اسلام آباد میں اپنے بھائیوں کے قائم کردہ ایم ایم اے ٹریننگ سنٹر میں دیگر فائٹرز اور ٹرینرز کے ہمراہ تربیت حاصل کرتی ہیں، ان کی پہلی پیشہ ورانہ لڑائی 2018 میں ہوئی تھی۔

مشکل ترین کھیل کا حصہ بننے والی انیتا کریم کا کہنا ہے کہ وہ مکسڈ مارشل آرٹ کے کھیل کے ذریعے یہ میسج دینا چاہتی ہیں کہ خواتین کسی شعبے میں بھی مردوں سے کم نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس سوچ کو اب ختم ہونا چاہئے کہ خواتین، مردوں کے تقابل میں کمزور ہیں۔

 ایک انٹرویو میں انکا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بچیوں کے لئے اپنے دفاع کا علم بہت اہم ہے۔ میں نے مخلوط مارشل آرٹس کی تربیت شروع کی تھی اور دوسری لڑکیوں کے لئے بھی ایک مثال بننا چاہتی تھی تاکہ انہیں ایم ایم اے جیسے کھیل میں شامل ہونے کی ترغیب دوں جو انہیں صحت مند اور فعال بنا سکتا ہے۔ ایم ایم اے واحد کھیل ہے جو آپ کے اعتماد کو فروغ دیتا ہے اور اپکے دفاع کی قوت دیتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ہنزہ میں اپنے انسٹرکٹر اور چھوٹے بھائی کے ساتھ تائیکوانڈو کی ٹریننگ کرتی تھی، میرے اہل خانہ نے ہمیشہ میری حمایت کی ہے اور ایم ایم اے کی طرف میرے جوش و جذبے کی حوصلہ افزائی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے بہت کچھ کیا اور عالمی سطح پر عزت اور تعریف حاصل کی ہے۔ انتیا نے کہا مجھے اس کھیل کا انتخاب کرنے پر بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن میں نےاپنے گھروالوں کی حمایت اور اپنی محنت کے ذریعے تمام نقادوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہا اگر ہم مردوں کے ساتھ یکساں طور پر تربیت حاصل کریں تو ہم دنیا میں مقابلہ کرنا سیکھ سکتے ہیں۔

انیتا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اپنے معاشرے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں خود سفر نہیں کرسکتی ہیں یا صرف خاص فیلڈز میں ہی کام کرسکتی ہیں۔ ہمیں ڈرنا سکھایا جاتا ہے، اور یہ تاثر بھی موجود ہے کہ لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ جب ہم باہر جاتے ہیں اور ہراسانی کا سامنا کرتے ہیں تو ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور رد عمل ظاہر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایم ایم اے نے مجھے اعتماد سکھایا ہے اور مقابلہ کرنے کے لئے مجھے مضبوط بھی بنایا ہے۔ انتیا نے کہا ہمیں پاکستان میں جو مشکلات درپیش ہیں ان کو دیکھتے ہوئے، میرے لئے یہاں لڑکی کی حیثیت سے تربیت کرنا اور لڑنا مشکل ہے کیونکہ ایم ایم اے ایک غیر معمولی کھیل ہے اور یہ یہاں خواتین کے لئے بھی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

انیتا نے مزید کہا پاکستان میں ایم ایم اے میں ایسی  لڑکیاں نہیں ہیں جن کے ساتھ میں تربیت حاصل کر سکوں ، لہذا میں اپنے بھائیوں کے ساتھ تربیت حاصل کرتی ہوں۔ عام طور پر لوگ اس کھیل کو اچھی طرح سے نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اسے صرف ایک لڑائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایم ایم اے محض لڑائی نہیں ہے۔ یہ ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بناتا ہے اور ہمیں بے پناہ اعتماد فراہم کرتا ہے۔

Watch Live Public News

مصنّف پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں اور دنیا نیوز اور نیادور میڈیا سے بطور اردو کانٹینٹ کریٹر منسلک رہے ہیں، حال ہی میں پبلک نیوز سے وابستہ ہوئے ہیں۔