چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے زیر صدارت تین رکنی بنچ نے فارن فنڈںگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ متفقہ ہے. تحریک انصاف کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی. کمیشن مطمئن ہے کہ پی ٹی آئی نے مختلف کمپنیوںسے ایسی فنڈنگ لی جو ممنوعہ تھی. اس کے علاوہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سے بھی فنڈز لئے. خیال رہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون 2022ء کو محفوظ کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 68 صفحات پر مشتمل ہے. فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے 16 اکاونٹس کے حوالے سے وضاحت نہیں دی. الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ پر پی ٹی آئی سے وضاحت طلب کرلی ہے. 34غیر ملکیوں سے بھی ڈونیشن وصول کی گئی. پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن سے بھی فنڈنگ وصول کی گئی. چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ صحیح ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے. آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے. 16بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے . چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 2008 سے2013 تک مس ڈکلیئریشن کیں . یہ کمیشن مطمئن ہے کہ جو ڈونیشن وصول ہوئی ابراج گروپ اور امریکہ میں سے لی گئی. فیصلے میںکہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پارٹی اکاونٹس کے حوالے سے جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا. ووٹن کرکٹ کلب سے فنڈ ریزنگ کے نام پر ملنے والی فنڈنگ بھی ممنوعہ تھی. پی ٹی آئی کو ابراج گروپ سمیت 34 کمپنیوں سے فنڈنگ ملی. الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط تھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ پولیس اور ایف سی کے ایک ہزار جوان ڈیوٹی پر مامور رہے۔ غیر متعلقہ افراد کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم میڈیا سمیت ریڈ زون دفاتر کو جانے والے افراد کو شناخت کے بعد جانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بھی داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لئے رینجرز کو سٹینڈ بائے پر رکھا گیا تھا۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے 14 نومبر 2014ء کو الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا، جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔ الیکشن کمیشن نے اگست 2020ء میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی. تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔ یہ اکاؤنٹس اسد قیصر، شاہ فرمان، عمران اسماعیل، محمود الرشید، احد رشید، ثمر علی خان، سیما ضیاء ، نجیب ہارون، جہانگیر رحمان، خالد مسعود، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے تھے۔