وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمشن کا فیصلہ عمران خان پر فرد جرم ہے کہ انہوں نے جھوٹے بیان حلفی جمع کرائے اور غیرقانونی غیرملکی فنڈنگ وصول کرکے آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی ۔ اپنے ٹؤئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر جھوٹے ترین شخص ثابت ہوئے ہیں ۔ قوم کو غیرملکی فنڈنگ کے سیاسی اثرات پر غور کرنا چاہئے. چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے زیر صدارت تین رکنی بنچ نے فارن فنڈںگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ متفقہ ہے. تحریک انصاف کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی. کمیشن مطمئن ہے کہ پی ٹی آئی نے مختلف کمپنیوںسے ایسی فنڈنگ لی جو ممنوعہ تھی. اس کے علاوہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سے بھی فنڈز لئے. خیال رہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون 2022ء کو محفوظ کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 68 صفحات پر مشتمل ہے. اس سے قبل فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے 16 اکاونٹس کے حوالے سے وضاحت نہیں دی. الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ پر پی ٹی آئی سے وضاحت طلب کرلی ہے. 34غیر ملکیوں سے بھی ڈونیشن وصول کی گئی. پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن سے بھی فنڈنگ وصول کی گئی. چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ صحیح ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے. آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے. 16بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے . چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 2008 سے2013 تک مس ڈکلیئریشن کیں . یہ کمیشن مطمئن ہے کہ جو ڈونیشن وصول ہوئی ابراج گروپ اور امریکہ میں سے لی گئی. فیصلے میںکہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پارٹی اکاونٹس کے حوالے سے جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا. ووٹن کرکٹ کلب سے فنڈ ریزنگ کے نام پر ملنے والی فنڈنگ بھی ممنوعہ تھی. پی ٹی آئی کو ابراج گروپ سمیت 34 کمپنیوں سے فنڈنگ ملی. الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط تھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ پولیس اور ایف سی کے ایک ہزار جوان ڈیوٹی پر مامور رہے۔ غیر متعلقہ افراد کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم میڈیا سمیت ریڈ زون دفاتر کو جانے والے افراد کو شناخت کے بعد جانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بھی داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لئے رینجرز کو سٹینڈ بائے پر رکھا گیا تھا۔