سیالکوٹ ( پبلک نیوز) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ سابقہ حکومت سے تین گنا زیادہ سڑکیں بنا چکے ہیں اور ان سے سستی بھی ، کیونکہ سڑکوں کی کمیشن سے لندن میں فلیٹ نہیں لئے جائیں گے۔ سیالکوٹ کھاریاں موٹروے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جو بھی منصوبہ ہونا چاہیے اس میں ہمیشہ سوچنا چاہیے کہ ملک کو اس کا کیا فائدہ ہے، اس کے فائدے میں آپ کر گنوا دئیے مگر جو پراجیکٹ ہم کامیاب ہے اور خیبر پختونخواہ میں ہم نے بنایا تھا، سوات موٹروے ، آج اگر سوات موٹروے کے آپ فائدے دیکھیں کہ عید کی چھٹیوں میں 27 لاکھ گاڑیاں وہاں گئی ہیں، اب یہ سوچیں کہ اس سے کتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سیالکوٹ کھاریاں موٹروے کا روٹ آبادی اور انڈسٹریل سنٹر سے گزرتا ہے، آپ اس سے تصویر کریں کہ اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہے، جب یہ مکمل ہو گا اور 100 کلو میٹر کا فرق پڑ گیا، جو کہ پرانے موٹروے اور اس میں ہے، آپ صرف یہ تصور کریں کہ اس سے ملک کو کتنا زیادہ فائدہ ہے، سو کلومیٹر ایکسٹرا گاڑیوں کے جانے مطلب ہے کہ ہر گاڑی سو کلومیٹر زیادہ پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ موٹروے کو سو کلومیٹر ایکسٹرا کیوں بنایا گیا، عقل تو یہ کہتی ہے کہ موٹروے جہاں آپ کا سارا ٹریفک جانا چاہئے زیادہ ٹریفک تو موٹروے پر جاتا ہے لوگ تو اس کو استعمال کرتے ہیں، سو کلومیٹر جو آدمی کی جیب سے جا رہا ہے اس کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی، تو وہ جو غلطی کی گئی تھی، اس میں تو یہاں موٹروے بننا چاہیے تھا، وہاں ڈیول کیرج میں بنا دیتے، دو سڑکیں بنا دیتے، وہاں موٹروے بنانا اس کا کبھی اندازہ لگایا جائے کہ ہمیں کتنا نقصان ہوا ہے اب تک۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب انشا اللہ دو سال میں ہم بڑی جلدی آپ کا یہ منصوبہ پراسیس کریں گے، اس کا مطلب ہے کہ آپ بڑا پیسہ بچائیں گے، آبادی اور انڈسٹریل ایریا کو پروموٹ کریں گے، اس کے بہت فائدے ہیں، اس منصوبے میں مسابقتی بولی کی وجہ سے ہم 12 ارب یعنی 26 فیصد بچت کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم عقل سے کام لیں تو 22 کروڑ آبادی ہمارے لئے بوجھ نہیں بلکہ یہی آبادی ہمیں فائدہ کروا سکتی ہے، پبلک ، پرائیویٹ پارٹنر شپ اس وقت آتی ہے جب انہیں کوئی فائدہ نظر آئے، ابھی تو یہ شروع ہوا ہے آپ دیکھیں گے کہ اس میں اور نجی سرمایہ کاری آئے گی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ ہم امپورٹ کرتے ہیں، تو صرف خرچہ زیادہ نہیں ہے بلکہ یہ امپورٹڈ فیول ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ڈالر اس میں خرچ ہوتے ہیں، دوسری چیز یہ ہے کہ گاڑی جب سو کلو میٹر زیادہ چلتی ہے اس کی ایک لمٹ ہوتی ہے، سو کلو میٹر کو آپ بیس سال میں لگا لیں کہ کتنا خرچہ آیا ہو گا، کتنی گاڑیوں نے سو کلو میٹر ایکسٹرا خرچہ کیا ، ان کے جو پرزے ہم باہر سے امپورٹ کرتے ہیں ان پر کتنا بوجھ پڑا۔