ویب ڈیسک :غزہ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں حکومت کے خلاف شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ مظاہروں میں جنگ بندی معاہدہ نہ ہونے کے سبب یرغمالوں کی واپسی میں ناکامی پر حکومت پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں تل ابیب، یروشلم سمیت بیشتر بڑے شہروں میں احتجاج کیا گیا۔
اسرائیلی اخبار 'یروشلم پوسٹ' کے مطابق یرغمالوں کی بازیابی کی مہم چلانے والی تنظیم 'ہوسٹیج فیملی فورم' کا کہنا تھا کہ تل ابیب میں ہونے والے احتجاج میں لگ بھگ تین لاکھ افراد نے شرکت کی ہے۔
احتجاج میں شریک مظاہرین وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی اتحادی حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی معاہدہ کریں تاکہ باقی یرغمالوں کی موت سے قبل واپسی ممکن ہو سکے۔
احتجاج میں شریک افراد نے حکومت کی توجہ یرغمالوں کی زندہ واپسی کی جانب مبذول کرنے کے لیے چھ علامتی تابوت بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
اسرائیلی اخبار 'ٹائمز آف اسرائیل' کی رپورٹ کے مطابق تل ابیب میں احتجاجی ریلی اسرائیل کی فوج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے نکالی گئی۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اتوار کی شب ہونے والے احتجاج میں مختلف شہروں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
مظاہروں کے دوران مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بھی بند کیا گیا جس سے اہم شہروں میں کئی گھنٹوں تک زمینی رابطے متاثر رہے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے ساتھ ساتھ واٹر کینین کا بھی استعمال کیا۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو اہم شاہراہوں سے ہٹانے کے لیے کئی افراد کو حراست میں بھی لیا۔
اتوار کو اسرائیل کی فوج کو جنوبی غزہ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ایک سرنگ سے ملی تھیں۔ فوج نے بیان میں کہا تھا کہ ان افراد کو سیکیورٹی اہلکاروں کے پہنچنے سے کچھ دیگر قبل فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق غزہ میں حماس اور دیگر عسکری تنظیموں کی تحویل میں لگ بھگ 100 یرغمالی موجود ہیں۔ اسرائیلی سیکیورٹی حکام کا اندازہ ہے کہ ان میں ایک تہائی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اتوار کو جن چھ یرغمالوں کی لاشیں ملی تھیں ان میں امریکی نژاد اسرائیلی 23 سالہ گولڈ برگ پولین سمیت 24 سالہ ایڈن یروشلمی، 25 سالہ اوری ڈانینو، 27 سالہ الموگ سروسی، 32 سالہ الیکس لوہانوف اور 40 سالہ کارمل گیٹ شامل تھے۔ اسرائیل کی فوج کو جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک سرنگ سے ان کی لاشیں ملی تھیں۔