ویب ڈیسک: چین میں کورونا کے 5 سال بعد ایک اور وائرس تیزی سے پھیلنے لگا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس وائرس کا نام ہیومن میٹاپنیو وائرس (HMPV) جو لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس سے متاثر ہونے والوں کو نزلہ اور کورونا جیسی علامات کی شکایات ہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پوسٹوں کے مطابق چین میں یہ وائرس تیزی سے پھیل جبکہ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایچ ایم پی وی میں نزلے جیسی علامات عام ہیں اور یہ کورونا جیسی علامات بھی پیدا کر سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین میں صحت سے متعلق حکام وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ہی صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین میں سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں اسپتالوں میں رش دکھایا گیا ہے، انٹرنیٹ صارفین کے مطابق انفلوئنزا، ایچ ایم پی وی، نمونیا اور کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔
سارس کوو ٹو نامی ایکس اکاؤنٹ نے یکم جنوری کو ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ چین میں انفلیواینزا اے، ایچ اہم پی وی، مائکو پلازما نمونیا اور کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور چین نے بڑھتی ہوئی وبا کے باعث ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
اس وائرل پوسٹ میں کیے گئے دعوے پر تاحال کسی قسم کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
انٹرنیٹ پر یہ بھی دعوے سامنے آرہے ہیں کہ چین نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بننے والا کورونا وائرس بھی چین سے شروع ہو کر دنیا بھر میں پھیلا تھا۔ چین کے نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق ایک نیوز کانفرنس میں انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’نیشنل ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن ایڈمنسٹریشن لیبارٹریوں کے لیے رپورٹ کرنے اور بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے اداروں کے لیے کیسز کی تصدیق اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک لائحہ عمل قائم کرے گی۔‘
جمعرات کو جاری کردہ ایک سرکاری بیان کے مطابق، سانس کی بیماریوں کے اعداد و شمار میں 16 سے 22 دسمبر کے ہفتے میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔
کان بیاؤ نامی ایک اور عہدیدار نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ چین کا سردیوں اور موسم بہار میں سانس کی مختلف بیماریوں سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سال کیسز کی مجموعی تعداد پچھلے سال کے مقابلے کم ہوگی۔
دوسری طرف عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں نئے کورونا وائرس وبا کو عالمی طبی ایمرجنسی مانا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریسس نے جنیوا میں بتایا کہ چین کی طرف سے 31 دسمبر 2019 کو پہلی بار ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، اور اب اس نئے وائرس نے 18 مختلف ممالک میں 7834 لوگوں کو متاثر کر دیا ہے۔ اس وائرس سے 170 لوگوں کی اموات بھی ہو گئی ہیں۔
حال ہی میں پائے جانے والے کیسز میں پیتھوجینز جیسے rhinovirus اور human metapneumovirus شامل ہیں۔
ایچ ایم پی وی وائرس کے زیادہ کیسز 14 سال سے کم عمر کے لوگوں میں پائے گئے اور ان کا رجحان چین کے شمالی صوبوں میں زیادہ رہا۔
شنگھائی کے ایک ہسپتال میں سانس کے ایک ماہر ڈاکٹر نے سرکاری میڈیا کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ عوام کو انسانی میٹانیوموائرس سے نمٹنے کے لیے اینٹی وائرل ادویات کے اندھا دھند استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اس وائرس کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے البتہ اس کی علامات نمونیا سے ملتی جلتی ہیں۔
’فنانشیل ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وائرس 2001 میں دریافت کیا گیا تھا، جو شمالی علاقہ میں خصوصاً 14 سال سے کم عمر کے لوگوں میں پھیل رہا ہے۔ بڑھتی سردی کے ساتھ لوگ زیادہ تیزی کے ساتھ انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وائرس کو لے کر نیشنل ڈیزیز کنٹرول اور روک تھام ایڈمنسٹریشن نے لیب رپورٹنگ کے لیے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 16 سے 22 دسمبر کے درمیان انفیکشن بہت تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔