افغانستان: مسجد میں دھماکہ، 18 افراد جاں بحق

افغانستان: مسجد میں دھماکہ، 18 افراد جاں بحق
گذشتہ روز افغانستان کے صوبہ ہرات میں جمعے کی نماز سے قبل ہونے والے دھماکے میں ایک عالم دین سمیت 18 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ افغان حکام کے مطابق ملک کے مغربی شہر ہرات کی سب سے بڑی مسجد میں جمعے کو ایک دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اس کے بااثر امام سمیت دیگر 18 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ صوبہ ہرات کے گورنر کے ترجمان نے صحافیوں کو ٹیکسٹ پیغام کی صورت میں تصدیق کی ہے کہ ’با اثر امام سمیت 18 افراد اس حادثے میں شہید ہوئے ہیں جو کہ مغربی افغانستان کی سب سے بڑی مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔‘ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دھماکہ مسجد گزرگاہ میں جمعے کی نماز سے قبل ہوا جس میں امام مجیب الرحمان انصاری جان سے گئے۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد کے احاطے میں خون آلود لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ اس حملے سے متعلق کچھ ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں، بہت سے لوگ خون میں لت پت زمین پر پڑے نظر آ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ دھماکہ شدید تھا۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایک ٹویٹر پیغام میں اس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’امارت اسلامیہ شہادت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے‘ اور کہا کہ مجرموں کو ان کے اعمال کی سزا دی جائے گی۔ طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں ایک اقتصادی اجلاس ہوا جس میں مولوی انصاری نے تقریر کی تھی۔ ملا برادر کے سیکریٹری عبداللہ عزام نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ تقریر کے بعد وہ اجازت لے کر اجلاس سے چلے گئے اور ’حملے میں شہید ہو گئے۔‘ ان کے طالبان کے حق میں تبصروں پر مختلف ردعمل سامنے آئی اور انہیں زیادہ تر طالبان حکومت کے مخالفین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ طالبان حکام اور مقامی طبی عملے نے بتایا کہ کم از کم 21 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مجیب الرحمان انصاری ایک بااثر طالبان نواز عالم تھے جو اپنی شعلہ بیان تقریروں کی وجہ سے مشہور تھے۔ جولائی میں، کابل میں ایک مذہبی اجتماع کے دوران، انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ’ہماری اسلامی حکومت کے خلاف چھوٹی سی حرکت‘ کرنے والوں کے سر قلم کیے جانے چاہییں۔ مجیب الرحمٰن انصاری گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک کی مغربی حمایت یافتہ حکومتوں پر تنقید کی وجہ سے افغانستان بھر میں مشہور تھے اور انہیں طالبان کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ ہرات کی گاسرگاہ مسجد کے مبلغ مولوی مجیب الرحمان خواتین کے حجاب کے بارے میں اپنے سخت تبصروں کے لیے بھی مشہور تھے اور وہ ملک میں ’اخلاقی بدعنوانی‘ کو نہ روکنے پر ناکارہ سابق جمہوری نظام کے حکام پر تنقید کرتے تھے۔ تقریباً دو سال پہلے ایک خبر آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک مذہبی پولیس بنا رہے ہیں جو اخلاقی کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ’وہ گزرگاہ کے اردگرد اخلاقی بدعنوانی دیکھیں گے تو وہ اس پر شرعی حدود کا اطلاق کریں گے۔‘ ہرات ایمبولینس سینٹر کے ایک عہدیدار محمد داؤد محمدی نے بتایا کہ ایمبولینسوں نے دھماکے سے 18 لاشوں اور 21 زخمی افراد کو ہرات کے ہسپتالوں تک پہنچایا۔ کسی بھی عسکری گروہ نے جمعے کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کے سال میں اسلامک سٹیٹ عسکری گروہ نے نماز جمعہ کے دوران مساجد پر متعدد خودکش حملے کیے ہیں جن میں زیادہ تر شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔