ویب ڈیسک : سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے پھیپھڑوں کی بجائے گلے کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بظاہر اومیکرون قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم جان لیوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اومیکرون سے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچتا جس طرح ڈیلٹا اور وائرس کی دیگر اقسام پہنچاتی ہیں۔ پروفیسر ڈینان پلائے کا کہنا تھا کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے یعنی حلق کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے مقابلے میں وہاں اپنی نقول زیادہ تیزی سے بناتی ہے۔ اگر وائرس اپنی زیادہ نقول حلق میں بناتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوسکتا ہے جس سے اومیکرون کے بہت تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ وضاحت بھی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے والا وائرس کم متعدی مگر زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ درحقیقت امیکرون سانس کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتا ہے اور اسی وجہ سے ممکنہ طور پر مریضوں میں بیماری کی علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر بہت کم افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پڑی ہے۔ دوسری طرف ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار عابدی محمد کا کہنا تھا کہ دیگر اقسام کے برعکس جو شدید نمونیا کا باعث بنتی ہیں اومیکرون سے بیمار ہونے پر علامات کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔ انہوں نے اسے اچھی خبر قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ اومیکرون کے بہت زیادہ متعدی ہونے کا مطلب ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ متعدد ممالک میں کورونا کی غالب قسم ہوگی جس سے ان ممالک کو خطرہ ہوگا جہاں ابھی آبادی کے بڑے حصے کی ویکسینیشن نہیں ہوسکی۔