فلسطین میں امن کیلئے امید کی لہر

israeal palestine peace pact
کیپشن: israeal palestine peace pact
سورس: google

ویب ڈیسک : حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے اپنا ردعمل ثالثوں تک پہنچانے کے اعلان کے بعد امید کی لہر دوڑ گئی ہے۔  اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے تحریک حماس کی تجاویز پر تبادلہ خیال کے لیے سکیورٹی کابینہ کے اجلاس میں  بحث کے بعد ایک وفد بھیجنے  کا فیصلہ کیا ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی صدر بائیڈن کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے قیدیوں کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ایک وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سربراہی موساد کے سربراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام اہداف حاصل کرنے تک جنگ کو ختم نہیں کریں گے۔ مذاکرات کس جگہ ہو رہے ہیں، اس کا مقام نہیں بتایا گیا۔

 دوسری طرف وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے کہ اسرائیلی مذاکرات کاروں کو جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں امریکی، قطری اور مصری ثالثوں سے مل کر معاملہ طے کرنے کی اجازت دی جائے۔ بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے حماس کی جانب سے حالیہ ردعمل پر تبادلہ خیال کیا۔ ’’العربیہ‘‘ کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ موساد کے سربراہ اور اسرائیلی وفد قطر کے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دوحہ جائیں گے۔

تین ہفتوں میں امن معاہدہ
اسرائیلی اخبار ’’ یدیعوت احرونوت‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل میں 3 ہفتوں کے اندر غزہ کے حوالے سے کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں امید موجود ہے۔ اخبار نے کہا حماس کی جانب سے ڈیل کی پیشکش کا جواب دینے کے ایک دن بعد اسرائیل میں یہ امید ہے کہ دو یا تین ہفتوں میں یرغمالیوں کے معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے تاہم یہ آسان نہیں ہے۔

پہلا مرحلہ
ایک اسرائیلی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ حماس اب اسرائیل سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں غزہ سے مکمل انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے۔ یہ مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ، جو زیر تشکیل ہے، اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اگر پہلے مرحلے کے دوران دوسرے مرحلے کے حوالے سے معاہدے نہیں ہوئے تو اسرائیل جنگ کی طرف لوٹ سکتا ہے۔

اہم پیش رفت
ایک اور اسرائیلی عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس کی طرف سے پیش کی گئی تجویز میں بہت اہم پیش رفت شامل ہے۔ ہم قیدیوں کے تبادلے کے اس طرح معاہدے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تاہم یہ نیتن یاہو پر منحصر ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ غزہ پر ایک معاہدے تک پہنچنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔

ایک اسرائیلی ذریعے نے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس ایک ایسے فریم ورک معاہدے تک پہنچنے کے دہانے پر ہیں جو جنگ بندی اور غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی ضمانت دیتا ہے۔ امریکی سی این این نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات سے واقف اسرائیلی ذریعے نے بتایا کہ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ حماس کا حالیہ ردعمل دونوں فریقین کو جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے تفصیلی بات چیت کرنے کے قابل بنائے گا۔

بین الاقوامی کوششیں
یاد رہے مصر، قطر اور امریکہ سمیت ثالث ممالک کئی مہینوں سے جنگ بندی تک پہنچنے اور غزہ میں موجود باقی 120 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن ان کی کوششیں ناکام ہوتی آرہی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاہدے سے جنگ کا خاتمہ اور غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا ضرور ہونا چاہیے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس وقت ہی جنگ بندی قبول کرے گا جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

 مئی کے آخر میں امریکی صدر بائیڈن کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے میں غزہ میں زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کی بتدریج رہائی اور دو مرحلوں میں اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہے۔ تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ مقتول قیدیوں کی باقیات کی واپسی کی بھی تجویز ہے۔

Watch Live Public News