لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو چھاپوں کے دوران ویڈیو بنانے کا حکم

لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو چھاپوں کے دوران ویڈیو بنانے کا حکم
کیپشن: Lahore High Court orders police to make videos during raids

ویب ڈیسک: لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کے وقت ویڈیو بنانے کے احکامات جاری کردیے۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو چھ ماہ میں پولیس باڈی کیمرے اور ڈیش بورڈ کیمرے فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے منشیات کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے نئے اصول وضح کردئیے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ 

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان منشیات کے روک تھام کے لیے مختلف بین الاقوامی کنونشنز کے ساتھ وابستہ ہے۔ پاکستان اپنے منشیات کے قوانین کو ان کنونشنز کے اصولوں کے مطابق کرنے کا پابند ہے۔ پاکستان میں فوجداری میں جھوٹی شکایت کی بھرمار ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے لیگ ریفارمز اور شفافیت کو بڑھانا ہوگا۔ 

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ویڈیو گرافی منشیات کے جھوٹے کیسز سے نمٹنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پولیس اور منشیات کے ملزمان کے درمیان انٹریکشن میں ویڈیو گرافی سے جھوٹے کیسوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ویڈیوز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پیٹرن معلوم ہو سکتا ہے۔ 

فیصلے کے مطابق ان پیٹرنز سے پالیسی سازوں کو اہلکاروں کی ٹریننگ اور پالیسی بنانے میں مدد ملے گی۔ فوٹیج کے تجزیے سے، حکام نظام میں موجود مسائل سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں منشیات کے کیسز میں ویڈیو گرافی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ 

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل اے این ایف نے منشیات کی ریڈ کے لیے ویڈیو گرافی کی ایس او پیز جاری کر رکھی ہیں۔ پنجاب پولیس کا بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پولیس کو ترجیحی بنیادوں پر پہننے والے کیمرے مہیا کرے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کیمروں سے بننے والی ویڈیو کے استعمال کے حوالے سے ایس او پیز بنائی جائیں۔ 

ہر آپریشن پر پولیس ٹیم کا رہنما اس بات کو یقینی بنائے کہ آپریشن کی فوٹیج بنائی گئی ہے۔ اگر ویڈیو ریکارڈ نہ ہو پائے تو کیس ڈائری میں اس کا درج ہونا ضروری ہے۔ جن جگہوں پر سیف سٹی کیمرے موجود ہیں تفتیشی افسر ان کی فوٹیج کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنائے۔ 

ایف آئی آر میں مطابق درخواست گزار کوثر بی بی، 24 ستمبر 2023 کو بہاولنگر کے علاقے کورا کھو کی طرف جا رہی تھی۔ خاتون کے ہاتھ میں پلاسٹک بیگ تھا، پولیس کو دیکھ کر خاتون نے فرار کی کوشش کی۔شکایت کنندہ، ایس آئی شاکر نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے مشکوک خاتون کو پکڑ لیا۔ پلاسٹک بیگ سے 1420 گرام چرس، ایک عدد قینچی، اور کچھ پیسے ملے۔

1 نومبر 2023 کو درخواست گزار کے والد نے ایس پی بہاولپور ریجن کو ایک شکایت درج کروائی۔ شکایت کے مطابق، فیاض محمود، جو کہ 7 ستمبر 2016 کو صدر بہاولنگر تھانے میں اے ایس آئی تھا۔ اے ایس آئی نے شکایت کنندہ کے بھائی اور بیٹے کو غیر قانونی حراست میں رکھا۔ شکایت گزار نے سیشن کورٹ میں حبس بےجا کی درخواست دائر کی، عدالت نے بھائی اور بیٹے کو رہا کروایا۔ 

شکایت کے مطابق، اے ایس آئی کی معافی پر، شکایت کنندہ نے درخواست واپس لے لی۔ اے ایس آئی فیاض پھر سب انسپکٹر بنا اور دوبارہ تھانہ صدر بہاولنگر میں تعینات ہوا۔ فیاض محمود نے، 2016 میں ہوئے واقعے کو ذہن میں رکھا۔ ایک شام، فیاض محمود کے حکم پر کچھ پولیس والے شکایت کنندہ کے گھر میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے۔

شکایت کنندہ کے گھر والوں نے کچھ جھگڑے کے بعد اے ایس آئی محمد مرتضی کو پکڑ لیا۔ شکایت گزار کے مطابق، کچھ دیر بعد پولیس نے چھاپہ مارا۔ پولیس نے شکایت گزار سمیت، تمام گھر والوں کو گرفتار کر لیا۔   پولیس شکایت کنندہ کے پیسے، جیولری، کار، موٹر سائیکل اور دوسری قیمتی اشیا ساتھ لے گئی۔

پولیس نے گرفتار افراد کے خلاف 7 مقدمات درج کیے۔ ایس پی نے شکایت گزار کی شکایت ڈی ایس پی جواد ساکھا کو بھیج دی۔ ڈی ایس پی نے پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت کو درست قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی تجویز دی۔ شکایت کنندہ، محمد سرور نے شکایت کی کاپی، آئی جی پنجاب کو ارسال کی۔

آئی جی پنجاب کے حکم پر ڈی پی او بہاولنگر نے انکوائری کی، اور شکایت گزار محمد سرور کو قصور وار پایا۔ 31 جنوری 2024 کو آئی جی پنجاب نے پولیس کے انٹر اکاؤنٹبلٹی ہیڈ کوارٹرز میں انکوائری کرنے کی ہدایت جاری کی۔ دو مختلف رپورٹس کی بنا پر آئی جی پنجاب نے انکوائری کرنے کا حکم دیا۔ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار کی علاقے میں اچھی شہرت نہیں ہے۔

درخواست گزار منشیات فروش اور مجرمین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ درخواست گزار کے گھر والوں کے خلاف منشیات کے بہت سے مقدمات درج ہیں۔ لاء افسر نے جن کیسز کی لسٹ جمع کروائی ہے، وہ درخواست گزار کے گھر والوں کے خلاف ہے۔ درخواست گزار کو اس کے گھر والوں کے غلط کاموں کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت درخواست گزار کی ضمانت 5 لاکھ کے مچلکوں کے عوض منظور کرتی ہے۔