ویب ڈیسک:(سلیمان اعوان) فرانس کے بعد پاکستان میں بھی اسقاط حمل کو جرم کی تعریف سے نکالنے کیلئے درخواست دائر کردی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اسقاط حمل کو جرم کی تعریف سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے آسیہ اسماعیل ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں صدر مملکت، وزارت صحت اور قانون کو فریق بنایا گیا۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے حاملہ ہونے پر ان کے تحفظ کیلئے کوئی قانون سازی موجود نہیں ہے۔ اسقاط حمل کا قانون ایسے کیسز میں متاثرہ خواتین کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتا۔
آسیہ اسماعیل ایڈووکیٹ نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ اینٹی ابورشن قانون محض ذہنی بیمار خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا سمیت دیگر ممالک میں پرو چوائس اپنے اپنے سماجی ماحول کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں آئین بھی پروچوائس کے معاملے پر خاموش ہے۔ ملکی آبادی کا 55 فیصد حصہ خواتین بنیادی حق سے محروم ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ تعزیر میں اسقاط حمل کو جرم کی تعریف سے رفع کیا جائے۔ خواتین کو پرو چوائس کا بنیادی حق دیا جائے۔
یاد رہے کہ فرانس اسقاطِ حمل کو آئین میں شامل کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔
فرانس کی پارلیمان میں پارلیمانی ممبران نے انیس سو اٹھاون کے آئین کو ترمیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
ووٹنگ کے عمل کے ذریعے ممبران کی جانب سے اس بات کو یقنی بنایا گیا تھا کہ اسقاط حمل کے ذریعے خواتین کے آزادی یقینی بنائی جا سکے۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون اس اقدام کو فارنسیسی فخر قرار دے دیا ہے۔
تاہم اسقاط حمل مخالف گروپوں نے اس تبدیلی پر سخت تنقید کی ہے۔
بی بی سے کی رپورٹ کے مطابق فرانس میں 1975 سے اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل ہے، لیکن پولز سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 85 فیصد عوام نے حمل کے خاتمے کے حق کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کی حمایت کی۔
دوسری جانب یہ جدید فرانس کی بانی دستاویز میں 25ویں ترمیم بن گئی، اور 2008 کے بعد پہلی ترمیم کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔