اسلام آباد: ( پبلک نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدود کا تعین عدالت کو کرنا ہے۔ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی۔ تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت آج دوبارہ ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ اس تاریخی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔ سماعت کا آغاز ہوا تو پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل احمد اویس کا کہنا تھا کہ کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی جب ایک نجی ہوٹل میں حمزہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ آج سابق گورنر پنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں۔ انہوں نے سرکاری مشینری کا اجلاس بھی بلا لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔ ہم نے اس معاملہ پر فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہم نے صرف قومی اسمبلی کے معاملہ کو دیکھنا ہے۔ جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کل ٹی وی پر یہ بھی دکھایا گیا پنجاب اسمبلی کو تالا لگا دیا گیا۔ پنخاب میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ موجود ہے وہاں جایا جائے۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر اپنے دلائل شروع کرنے لگے تو جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ اس پر جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے، اسے تحفظ حاصل ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔ آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ججز کے درمیان تفریق ہو، وہ ایک دوسرے کو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت نے خود معاملہ نمٹانا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ اگر ججز کا آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کر سکتی، ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پرائم منسٹر کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لئے ہے اس نے اپنا سپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلہ کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے۔ یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے۔ کہیں تو لائن کھیچنا پڑے گے۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا تو عدالت نے اس کو غیر آینی قرار دیا۔ عدالت نے اسمبلی کا خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی۔ اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ میری یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ واضح کریں کہ کوئی آئینی بحران ہے تو کیسے ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ آئینی بحران کہاں ہے؟ ہمیں تو کہیں بحران نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے تقرر کا عمل بھی جاری ہے۔ اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا۔