پیمرا ترمیمی بل 2023 سینیٹ سے منظور

پیمرا ترمیمی بل 2023 سینیٹ سے منظور
اسلام آباد: سینیٹ نے پیمرا ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا ہے۔ تفصیلات کے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023ءسینیٹ آف پاکستان سے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءسینیٹ میں پیش کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءپر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2022ءمیں پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کے عمل کا آغاز کیا، اس میں بہت سی شقوں کی تبدیلی ضروری تھیں، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے، پی بی اے، ایمنڈ سمیت تمام میڈیا نمائندوں کے ساتھ مل کر اس پراسیس کو شروع کیا، طویل مشاورت کے بعد مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن کو اس بل میں شامل کیا گیا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس 2002ءکے تحت چیئرمین پیمرا کسی بھی چینل کو بند کر سکتا ہے، معطل کر سکتا ہے، لائسنس منسوخ کر سکتا ہے، چلتے پروگرام کو بند کر سکتا ہے، چیئرمین پیمرا کے یکطرفہ اختیار کو اتھارٹی میں تقسیم کیا، کونسل آف اتھارٹی کو اختیار دیا، اس میں اپیل کا حق دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا ورکرز کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، نیوز پیپرز ملازمین کے لئے آئی ٹی این ای کا پلیٹ فارم دستیاب تھا، پی ایف یو جے، پی آر اے، آر آئی یو جے سمیت مختلف نمائندوں سے مل کر اس ترمیم کو شامل کیا گیا کہ کوئی ادارہ ملازمین کے واجبات ادا نہیں کرتا تو حکومت انہیں اشتہارات نہیں دے گی، اگر کوئی ادارہ کم از کم اجرت ادا نہیں کرے گا تو اسے بھی حکومتی بزنس جاری نہیں کیا جائے گا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ آئی ٹی این ای نے 9 ماہ میں 14 کروڑ روپے ریکور کر کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی، تین شقیں اس بل میں شامل کی گئیں، 12 ماہ اس پر مشاورت ہوئی، قومی اسمبلی میں 10 سے 12 دن تک یہ بل موجود رہا، وہاں اس پر بحث ہوئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہاکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے یہ بل منظور ہوا، اس کے بعد یہ بل سینیٹ اجلاس میں پیش کیا گیا، میری درخواست پر یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تاکہ اس میں مزید رائے آ جائے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں چیئرمین پیمرا کی سلیکشن کا اختیار پارلیمان کو دینے کی رائے دی گئی، وزیراعظم نے اس ترمیم کی فوری منظوری دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آگاہ کیا کہ دونوں شقیں قانون کا حصہ ہیں، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف کو 12 ممالک اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی ڈیفی نیشن سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے تیار کی. پہلے کہا گیا کہ کسی کے اشارے پر یہ کالا قانون بنایا جا رہا ہے، میں نے ہمیشہ کہا کہ ترامیم دیں لیکن اسے میری ذات کا مسئلہ بنایا گیا، میں نے ہمیشہ تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کی ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ سی پی این ای، ایمنڈ، پی ایف یو جے، پی بی اے کے لوگوں نے کمیٹی میں آ کر تصدیق کی کہ ہم نے اس بل کی تیاری میں مشاورت میں حصہ لیا، میڈیا نمائندوں نے کہا کہ بل حکومت نے پیش کیا ہے لیکن یہ میڈیا انڈسٹری کا بل ہے، میری قیادت نے اظہار رائے کی جنگ لڑی ہے، سابق دور میں چلتے پروگرام بند کر دیئے جاتے تھے، عرفان صدیقی کو ایک کالم لکھنے پر جیل بھیجا گیا، ہم ان مراحل سے گذرے ہیں، میری قیادت پر الزام لگایا گیا کہ ہم کالا قانون لا رہے ہیں، ہم آزادی اظہار رائے کو ختم کر رہے ہیں، بل کو پڑھے بغیر متنازعہ بنایا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پریس گیلری میں پی ایف یو جے، پی آر اے سمیت تمام ورکنگ جرنلسٹس موجود ہیں، یہ بل ایک پراسیس سے گذر کر آیا تھا، اس بل کے خلاف پروپیگنڈا کر کے ورکرز کے حقوق صلب کرنے کی کوشش کی گئی، ورکنگ جرنلسٹس کی جانب سے یہ بل پیش کروں گی، جب پی ایم ڈی اے بن رہی تھی اس وقت بھاشن دینے والے کہاں تھے؟ ،ہم پی ایم ڈی اے کے کالے قانون کے خلاف دھرنے دے رہے تھے، اس وقت یہ کہاں تھے؟ ، بل کو پڑھے اور سمجھے بغیر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔