ویب ڈیسک : وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا رعشے کی بیماری یا " پارکنسن" کا علاج نہیں ہو رہا ہے۔ کیرین نے یہ بات صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتائی۔
اس سے قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی تھی کہ "والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر" سے تعلق رکھنے والے پارکنسن کے ایک ماہر ڈاکٹر نے گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران میں آٹھ بار وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔ اس میں کم از کم وہ ایک مرتبہ صدر بائیڈن سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔
وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والوں کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق مذکورہ ڈاکٹر کیون کینرڈ نے یہ دورے جولائی 2023 سے مارچ 2024 کے درمیان ہوئے۔ البتہ یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ آیا کینرڈ بالخصوص صدر کے حوالے سے مشاورت کے لیے وائٹ ہاؤس گئے یا پھر ان کی موجودگی غیر متعلقہ ملاقاتوں کے سلسلے میں تھی۔
معروف پروفیشنل ویب سائٹ LinkedIn پر ڈاکٹر کینرڈ کے کوائف میں یہ بات لکھی ہے کہ وہ 12 سال سے زیادہ عرصے سے وائٹ ہاؤس میں طبی یونٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ طبی شعبے کے پیشہ ورانہ افراد سے متعلق ویب سائٹ Doximity پر ڈاکٹر کینرڈ کے کوائف میں بتایا گیا ہے کہ وہ 2012 سے 2022 تک " وائٹ ہاؤس کے طبی یونٹ میں اعصابی طب کے مشیر اور صدر کے طبیب" رہے۔ اس مدت میں دو صدور براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور شامل ہیں۔
اوباما انتظامیہ کے ریکارڈ کے مطابق 2012 میں ڈاکٹر کینرڈ نے وائٹ ہاؤس کے دس دورے کیے، اس وقت جو بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر کینرڈ 2013 میں چار اور 2014 میں ایک مرتبہ وائٹ ہاؤس گئے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس ترجمان اینڈرو بیٹس نے ایک بیان میں بتایا کہ "والٹر ریڈ سینٹر کے طبی مشیروں کا ایک وسیع مجموعہ وائٹ ہاؤس میں موجود عسکری اہل کاروں کے علاج کے لیے آتا رہا ہے"۔ انہوں نے مزید بتایا کہ "صدر جو بائیڈن کے سالانہ جامع جسمانی معائنے کے حصے کے طور پر سال میں ایک مرتبہ اعصابی ڈاکٹر ان کا معائنہ کیا کرتا تھا، اس معائنے میں پارکنسن کی کوئی علامت نہیں پائی گئی اور نہ اس کا علاج کیا گیا"۔
جو بائیڈن کا ذاتی طور پر معائنہ نہ کرنے والے اعصابی طبیبوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کے نظر آنے پر ایسی علامات ملاحظہ کیں جو پارکنسن (رعشہ) کی بیماری یا اسی سے متعلق مرض کے موافق ہیں۔ ان علامات میں دھیمی آواز میں بات کرنا، آگے کی جانب جھکی ہوئی حالت، بوجھل طریقے سے قدم اٹھانا اور غیر مربوط گفتگو شامل ہے۔ البتہ ان طبیبوں کا کہنا ہے کہ براہ راست معائنے کے بغیر تشخیص کا تعین ممکن نہیں ہے۔