ویب ڈیسک: لاہور ہائیکورٹ میں آئی ایس آئی کو فون کالیں ٹیپ کرنے کی اجازت کےنوٹیفیکیشن کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اسی نوعیت کی پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء ہونے کی بناء پر غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر شفاف ٹرائل ایکٹ کانفاذ ہوجائے تو ہمارا عدالتی نظام بہت بہتر ہوجائے۔ کیا اسی طرح کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اسی طرح کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی لے جائیں تو ایک ہی عدالت سے فیصلہ آجائے۔ وکیل اظہر صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار اسی ایریا تک محدود ہے۔
جسٹس شہباز رضوی نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ نوٹیفیکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ سے معطل ہوجاتاہے تو اس کےاثرات کیا ہوں گے۔ بہت مثالیں ہیں ایک ہی نوعیت کی درخواستیں ملک کی عدالتوں میں چل رہی ہیں۔
اظہرصدیقی نے دلائل میں کہا کہ اگر عدالت چاہے تواسی نکتہ پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردے۔ یہ آئین کےآرٹیکل دس اے کےتحت شفاف ٹرائل کامعاملہ ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا جا چکا ہے۔ کسی قانونی جواز کےبغیر فون ٹیپ کرنا قانون کی نظر میں جرم ہے۔
عدالتی حکم پردرخواست گزار نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی عدالت میں پیش کردی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رفاقت ڈوگر عدالت پیش ہوئے۔
درخواست گزار جوڈیشل ایکٹوازم پینل کےوکیل اظہر صدیق نے دلائل دئیے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئی ایس آئی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کےتحت ہر شہری کو شفاف ٹرائل اور پرائیویسی کا حق حاصل ہے۔ فون ٹیپنگ خلاف آئین اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت آئی ایس آئی کو فون کالیں ٹیپ کرنے کی اجازت کے کےنوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے۔