اے ٹی سی نے شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مستر د کردی

اے ٹی سی نے شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مستر د کردی

(ویب ڈیسک )  انسداد دہشتگردی کی عدالت نے  پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ  کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

تفصیلات کے مطابق  انسدد دہشتگردی عدالت کے جج ابولحسنات ذوالقرنین کیس کی سماعت کی۔ شعیب شاہین کے ساتھ وکلاء کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔

وکیل نے بتایا کہ   شعیب شاہین کے خلاف ایک اور ایف آئی آر چھپا کر رکھی گئی ہے ۔

وکیل شیعب شاہین نے کہا کہ  تمام قائدین کے خلاف ایک غلط مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔وکیل شعیب شاہین نے  عدالت میں ماضی کے کیسز کا حوالہ  دیا۔

جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ  پر امن ماحول کو کوئی کیسے خراب کر سکتا ہے ، و کیل نے کہا کہ  یہی تو بات ہے کو عدالت کو بتانا چاہتے ہیں شعیب شاہین نے کوئی جرم نہیں کیا ۔

پولیس نے   شعیب شاہین کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا  کردی۔تاہم عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

دریں اثنا ایڈوکیٹ شعیب شاہین کی گرفتاری سے متعلق  اسلام آباد ہائیکورٹ  میں کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ آئی جی اسلام عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ  نے  استفسار کیا کہ  جی آئی جی صاحب شعیب شاہین کدھر ہیں؟،اس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ  سر وہ باقاعدہ گرفتار ہیں اور عدالت میں پیش کردئیے گئے ہیں، میں ایف آئی آر کی کاپی ساتھ لایا ہوں۔

جسٹس عامر فارو ق نے کہا کہ  تو اگر گرفتار کیا گیا ہے تو ان سے ملاقات کیوں نہیں کرائی گئی؟ ، اس عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے کہ ملزم ریمانڈ پر ہوں تو بھی ملاقات کرائی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ   شعیب شاہین صاحب کو کس تھانے سے گرفتار کیا گیا؟ تو آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ  انہیں تھانہ لون سے گرفتار کیا گیا ہے ۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ  چونکہ یہ درخواست صرف شعیب شاہین کی بازیابی کی ہے،  مگر آئی جی صاحب پھر بھی پوچھ رہا ہوں کہ نیشنل لیول کے لوگ ہیں سب،  کیا کسی کو غیر قانونی طور پر گرفتار رکھا گیا ہے؟ ۔اس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ  نہیں سب کی باقاعدہ گرفتاری ڈالی گئی ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کاہ کہ   شعیب شاہین کو کسی اور تھانے کے ایس ایچ او نے گرفتار کیا،  اب آئی جی اسلام آباد کسی اور تھانے کی گرفتاری کا بتا رہے ہیں۔

ایڈوکیٹ شعیب شاہین کے وکیل نے گرفتاری کے وقت کی تصاویر چیف جسٹس کو دکھا دیں۔ وکیل نے کہا کہ جس ایس ایچ او نے گرفتار کیا وہ اس وقت کمرہ عدالت میں موجود ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ  آئی جی صاحب قانونی سوال پوچھ رہا ہوں کہ ایف آئی آر کسی اور تھانے میں ہو گرفتار ہوئی اور ایس ایچ او کرے ؟، کیا ایسا قانونی طور پر ممکن ہے؟  اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ مائی کارڈ ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  مجھے ایف آئی آر کی کاپی دکھائیں، دفعات کیا لگائی ہیں ؟، رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ایس ایچ او نے گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی سے سوال کیا کہ  کیا ایسا ہی ہے؟ رپورٹ میں لکھا ہوا ہے، آپ خود پڑھ لیں، آپ پارلیمنٹ سے ہو کر آئے ہیں ۔

آئی جی نے کہا کہ  جی سر میں وہاں سے ہوکر آرہا ہوں،معزز جج نے پوچھا کہ  وہاں کیا ہوا؟ کس سے مل کر آئے ہیں؟ اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ  اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ  کیا قومی اسمبلی کے اندر سے گرفتار کیا گیا تھا ؟  اس پر آئی جی نے کہا کہ  نہیں مائی لارڈ باہر سے گرفتار کیا گیا تھا،ہمیں کہا گیا کہ گرفتار لوگوں کے پروڈکشن آڈر جاری کرنے ہیں، اس سے متعلق بات ہوئی۔

شعیب شاہین کے وکیل ایف آئی آر میں درج دفعات پڑھ رہے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ  میں اب انتظار کرہا ہوں، اگر شعیب شاہین کا جوڈیشل یا جسمانی ریمانڈ ہوجاتا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟، میں ایف آئی آر سے شعیب شاہین کا نام کیسے نکال سکتا ہوں؟ یا تو سب کے نام نکالوں،اس پر شعیب شاہین کے وکیل  نے جواب دیا کہ  آپ کیس بھی ختم کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے  آئی جی اسلام آباد کو شعیب شاہین سے متعلق درج ایف آر کی فراہمی کا حکم  دیا۔آئی جی نے بتایا کہ   شعیب شاہین کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہیں، ایک تھانہ نون اور دوسرا تھانہ شنگجانی میں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  اس وقت شعیب شاہین گرفتار ہوکر ایک عدالت کی کسٹڈی میں آچکے ہیں،اب میرا دائرہ اختیار یہاں ختم ہورہا ہے،میں یہاں کیس کا فیصلہ نہیں کرہا، میں اسے اپنے پاس رکھ رہا ہوں۔

وکیل نے کہا کہ   شعیب شاہین کو تضحیک آمیز روئیے سے گرفتار کیا گیا ہے،اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ  میں اس بات کا جواب لے لیتا ہوں،یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ پیار سے گرفتار نہیں کیا ہوگا ، میں اس حوالے سے ایک آڈر پاس کروں گا۔

بعد ازاں عدات  کی جانب سے کیس کی سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔

Watch Live Public News