کابل: (ویب ڈیسک) گذشتہ سال اگست 2021ء میں کابل ائیرپورٹ پر گم ہونے والا معصوم بچہ بالاخر اپنے رشتہ داروں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ اس خبر کی کہانی کسی فلم کے سکرپٹ جیسی ہے۔ تفصیل کے مطابق افغانستان میں گذشتہ سال اگست میں افراتفری کے دوران ہزاروں افراد ملک چھوڑ کر جا رہے تھے۔ طالبان تقریباً پورے ملک پر قابض ہو چکے تھے۔ مایوس لوگ کابل ایئرپورٹ کی طرف بھاگ رہے تھے، تاکہ کسی بھی طرح سے یہاں سے جان چھڑائی جا سکے۔ ایک طرف امریکا سمیت دیگر ممالک اپنے خصوصی طیاروں کے ذریعے اپنے لوگوں کو نکال رہے تھے۔ دوسری جانب جان بچا کر بہتر زندگی کی امید میں کچھ لوگ بھوکے پیاسے ایئرپورٹ پر کھڑے تھے کہ کسی بھی قیمت پر اپنا ملک چھوڑ دیں۔ کابل ائیرپورٹ اور اس کے اطراف حالات بے قابو ہوگئے تھے۔ کابل کے حامد کرزئی ہوائی اڈے پر تل رکھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ وہاں ہزاروں لوگ امریکا اور دیگر ممالک جانے کیلئے جمع تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پچھلی حکومتوں کے لیے کام کیا تھا جو طالبان کی نئی حکومت میں خطرہ بن سکتے ہیں۔ انھیں میں ایک افغان خاندان ایسا بھی تھا جس نے گھبراہٹ میں اپنا بچہ وہاں موجود ایک فوجی کو پکڑا دیا اور خود کافی تگ ودو کے بعد ائیرپورٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔ اس خاندان کے سربراہ مرزا علی احمدی جو امریکی سفارت خانے میں بطور سیکورٹی گارڈ کام کرتے تھے۔ انہوں نے کابل ائیرپورٹ پر اپنا بچہ ڈھونڈںے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن انھیں اس میں کامیابی نہ ملی۔ جب تمام امیدیں دم تور گئیں تو یہ خاندان طیارے میں سوار ہو کر خود تو امریکا پہنچ گیا لیکن ان کا بچہ وہیں رہ گیا۔ مرزا نے بتایا کہ وہ اہلیہ ثریا اور 5 بچوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے، 2 ماہ کا بچہ سہیل ان کی گود میں تھا۔ انہوں نے سوچا کی دھکم پیل میں کہیں اس کی جان نہ چلی جائے، اس لئے انہوں نے ڈر کے مارے اسے باڑ کے دوسری طرف کھڑے یونیفارم میں ملبوس ایک سپاہی کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طالبان جنگجوؤں نے ہجوم کو پیچھے ہٹا دیا۔ جب مرزا اور اس کا خاندان واپس آیا تو نہ سپاہی اور نہ ہی اس کا بچہ نظر آیا۔ بدحواس خاندان نے اسے ہر جگہ تلاش کیا۔ پھر کچھ افسران نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ جہاز تک پہنچ گیا ہو، آپ بھی چلے جائیں، بعد میں بچہ مل جائے گا۔ بالاخر مرزا اور اس کا خاندان امریکہ جانے والے جہاز میں سوار ہوئے اور ٹیکساس میں فوجی اڈے پر پہنچے۔ مہینوں تک وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے بیٹے سہیل کو کیا ہوا ہے۔ نومبر میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے بچے کی کہانی کو نمایاں طور پر رپورٹ کیا، جس کے بعد اس کی تلاشی کا عمل شروع کیا گیا۔ حکام کو پتا چلا کہ سہیل نامی یہ بچہ ایک ٹیکسی ڈرائیور حامد سیفی کے گھر ہے۔ 29 سالہ حامد نے میڈیا کو ائیرپورٹ پر تھے کہ انہوں نے اچانک ایک بچے کی آواز سنی جو زمین پر لیٹا رو رہا تھا۔ حامد نے اس کے والدین والوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن جب اس کی تگ ودو ناکام ہوئی تو اس نے بچے کو اپنے گھر لے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سوچا کہ وہ اور اس کی بیوی اس کی پرورش اپنے بچوں کی طرح کریں گے۔ انہوں نے بچے کا نام محمد عابد رکھا۔ اس نے اپنی فیس بک وال پر اپنے دیگر بچوں کے ساتھ اس کی ایک تصویر بھی لگائی۔ تاہم بچے کی اطلاع ملنے پر بچے کے نانا نانی افغانستان کے صوبے بدخشاں سے کابل پہنچے تاکہ سہیل کو اپنی تحویل میں لیا جا سکے۔ سہیل کی حوالگی کے موقع پر ٹیکسی ڈرائیور حامد اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکا اور اسے سینے سے لگا کر روتا رہا۔