صحافیوں کی ہراسگی کیس: ''آپ ہمارا کندھا استعمال کر کے کام اپنا نکال رہے ہیں''؟ چیف جسٹس

صحافیوں کی ہراسگی کیس: ''آپ ہمارا کندھا استعمال کر کے کام اپنا نکال رہے ہیں''؟ چیف جسٹس
کیپشن: Harassment case of journalists: "You are using our shoulder to get your work done"? Chief Justice

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کیے جانے اور ہراساں کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا ہے کہ کیا ہم نے صحافیوں کیخلاف کوئی شکایت کی تھی؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے وکیل بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے، صحافیوں پر حملے کے مقدمات میں آئی جی کی غیرتسلی بخش کارکردگی رہی۔ 

چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟اٹارنی جنرل صاحب! یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے،4سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟کیا آپ کو 4صدیاں چاہئیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟ کیا آپ اپنا چہرہ دکھانے آئے ہیں؟ کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے کسی کی گھر میں جا کر پٹائی کی جاتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور جیل میں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ کیوں جیل میں ہیں؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسد طور پر حکومتی افسران کا  وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر میں افسران کا ذکر ہے جن کا وقار مجروح ہوا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد طور پر جو دفعات لگائی گئیں وہ کیسے بنتی ہیں؟ چیف جسٹس نے ایف آئی اے افسر سے سوال کیا کہ کیا آپ کے ادارے میں کوئی پڑھالکھا ہے؟ اگر کوئی نہیں ہے تو پھر اردو میں ترجمہ کروالیں۔ 

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم نے صحافیوں کیخلاف آپ کو کوئی شکایت کی تھی؟ ججوں کا نام لیکر آپ نے صحافیوں کو نوٹس بھیج دیئے؟ آپ ہمارا کندھا استعمال کر کے کام اپنا نکال رہے ہیں؟ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کا باس کون ہے؟ جواب آپکو پتہ ہے لیکن آپ بتائیں گے نہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ایسے ہی ہے۔ 

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال نہ کریں۔ ایک شخص نے جان سے مارنے کی دھمکی دی اس پر درخواست دائر ہوئی تو ایس ایچ او پانچ دن تک بیٹھا رہا، پھر کہا گیا وزیر سے ہدایت لیکر بتاؤں گا، مطیع اللہ جان سے متعلق سپریم کورٹ میں جھوٹی رپورٹ جمع کرائی گئی، اغواء کار جن گاڑیوں پر آئے کیا انکے نمبرز نظر آ رہے ہیں؟

مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہمیں تو نظر آ رہے ہیں، انہیں نظر نہیں آ رہے۔ صحافی شاہد متیلا نے ایک انٹرویو چھاپا کہ جنرل باجوہ نے فیض حمید کی مجھے بھونڈے انداز میں اٹھانے پر کلاس کی۔

چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ تعاون کریں گے؟ مطیع اللہ جان نے کہا کہ چار سال بعد پہلی مرتبہ بلائیں گے تو کیوں نہیں جائیں گے؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایف آئی اے نے 115 انکوائریاں کھولیں،65نوٹسز جاری کیے گئے۔ ہتک عزت اور توہینِ عدالت کا قانون موجود ہے۔ اگر عدلیہ کا اختیار ایف آئی اے اپنے ہاتھوں میں لے گا تو اسکا غلط استعمال ہوگا۔

ابصار عالم نے دوران سماعت کہا کہ میرے حوالے سے بھی جنرل باجوہ سے متعلق شاہد متیلا نے لکھا کہ نیچے سے کسی افسر کو غصہ آگیا ہوگا۔

‏اسد طور کیس میں ایف آئی آر پر نظرثانی کا معاملہ اٹارنی جنرل پر چھوڑ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آرڈر کریں یا آپ گریس دکھائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو دفعات ایف آئی آر میں نہیں بنتی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مختصر تاریخ رکھیں گے دیکھتے ہیں اٹارنی جنرل کیا کرتے ہیں۔کیس کی سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی گئی۔