ویب ڈیسک: قومی اسمبلی نے پارلیمانی کارروائی کو بہتر بنانے کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک منظور کر لی ہے۔
تفصیلا ت کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے تجویز پیش کی۔ کمیٹی کی تشکیل کی تجویز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری نے پیش کی تھی۔
کمیٹی سپیکر کی تجویز پر چارٹر آف پارلیمنٹ پر غور کرے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی تمام جماعتوں سے نام لے کر کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے شواہد ملے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے گرفتار کیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان سپیکر ڈائس پر ڈپٹی سپیکر کے پاس گئے اور ان سے سے تحریک انصاف کے گرفتار ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے استفسار کیا۔ جس کے بعد ایوان کی کارروائی میں صرف حکومتی ارکان کی گفتگو جاری رہی تو اپوزیشن نے اس پر احتجاج کیا۔
اس ایوان کو چلانا ہے تو اپوزیشن کو بات کرنے دی جائے:خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے رکن سید خورشید شاہ نے ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ اگر اس ایوان کو چلانا ہے تو اپوزیشن کو بات کرنے دی جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف حکومتی لوگ ہی بات کرتے رہیں۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے جواب دیا کہ علی محمد خان نے جو انفارمیشن مانگی ہے وہ میرے علم میں نہیں ہے۔ وہ معلومات مانگی ہیں سپیکر صاحب آ جاتے ہیں تو وہ آگاہ کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن ان معلومات کے آنے سے پہلے بات کرنا چاہتی ہے تو میں ان کو فلور دینے کو تیار ہوں۔ جس کے بعد سپیکر نے علی محمد خان کو بات کرنے کی دعوت دی۔
ہمارے ممبران کو نقاب پوش افراد نے اٹھایا، علی محمد خان
علی محمد خان نے کہا کہ ’ہمارے ممبران کو نقاب پوش افراد نے اٹھا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں، بشمول رانا ثناءاللہ، بھی اس واقعے کے وقت موجود تھیں۔ آئی جی اسلام آباد سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ان کے لوگ تھے، جس پر انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ سپیکر نے تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز منگوانے کا حکم دیا اور پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا وعدہ کیا، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔‘
علی محمد خان نے کہا کہ ان کے ممبران کا استحقاق مجروح ہوا اور اسپیکر ایاز صادق نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس پر ایکشن لیں گے۔ تمام ارکان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرکے ان کو ایوان میں حاضر کیا جائے۔
پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کرنا اپوزیشن کا حق ہے: عطاتارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ’پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن پورا ایوان سپیکر ایاز صادق کے پیچھے کھڑا ہے۔ یہاں اسد قیصر کو اپوزیشن کی بات سننے پر گالیاں دی جاتی تھیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ پارلیمنٹ سے کسی کو نہیں اٹھایا گیا۔ شواہد دیکھ لیں پھر اس پر بات کریں گے۔ عطا اللہ تارڑ کی بات پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔
تحریک انصاف کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کا اعلان
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہرنے کہا کہ ’جب تک ہمارے اراکینِ اسمبلی رہا نہیں ہوتے پارٹی کے صرف نو دس اراکین ہی ایوان میں آئیں گے۔ جو 10 ستمبر کو ہوا اُمید ہے یہ دہرایا نہیں جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ایوان کا تقدس پامال ہوا ہے، ایوان پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ایوان کے لیے یہ بلیک ڈے ہے۔ہمارے 10 ایم این ایز کو جس انداز سے اُٹھایا گیا یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔‘
بیرسٹر گوہر علی خان نے سوال اُٹھائے کہ ’جن دروازوں سے نقاب پوش آئے اس کی چابیاں کس کے پاس تھیں؟ ایوان کی لاٹیں کس نے بند کیں؟‘ہم چاہتے ہیں ایوان مضبوط ہو اور سیاسی قوتیں مضبوط ہوں، پھر غیر سیاسی قوتوں کو موقع نہیں ملے گا۔‘
انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے انکوائری کرنی ہے تو آڈیو ویڈیو سب ہمارے ساتھ شیئر کریں۔‘
بیرسٹر گوہر آپ اپنے لیڈر کیلئےکیس عدالت میں لڑیں یہاں عوام کے مسئلے حل کریں،بلاول بھٹو
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان سے کہا کہ ’گزارش ہے کہ آپ اسمبلی سے نہ جائیں، کمیٹیاں نہ چھوڑیں۔ آپ کے ایسے فیصلوں سے وہ تو خوش ہوں گے جو چاہتے ہیں کہ آپ نہ ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب تک یہ ہاؤس فنکشنل نہیں ہوگا یہ ملک فنکشنل نہیں ہوگا۔ آپ ایوان میں اپنا کردار ادا کریں۔‘ہماری گیلری میں اس وقت طلبا بیٹھے ہیں، یہ قوم کا مستقبل ہیں,طلبا کا ہمارے اس ادارے پہ کیا اعتماد ہو گا؟ یہ اس وقت کیا سوچ رہے ہوں گے,کوئی ڈاکٹر بنے گا، کوئی وکیل لیکن ہمیں دیکھ کر کوئی بھی سیاستدان نہیں بننا چاہے گا.
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام نے ووٹ ڈال کر نمائندے منتخب کیے کہ یہ ہمارا فیصلہ کریں گے،ہم نے سیاست کو گالی بنا دیا ہے،اسی سیاست سے ہم نے نوجوان کو روزگار، معاشی استحکام اور عوام کو تحفظ دینا ہے،آج اس ایوان کی گیلری میں ہمارے نوجوان بیٹھے ہیں،اپوزیشن رکن کی تقریر سنتے ہوئے سوچ رہا تھا قوم کے مستقبل ہمارے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی سیاستدان بننا نہیں چاہے گا،اس ایوان کا رکن بننا سب کے لیے اعزاز کی بات ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ عرصہ سے سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے،اسی سیاست سے نوجوانوں کو روزگار اور ترقی دلوانا ہے،عوام کو تحفظ دینا غربت سے نکالنا ہے،ہم باہر جو سیاست کریں ہمارا مسئلہ ہے، یہاں ہماری ذمہ داری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ اس آئین کی بالا دستی کے بغیر کوئی ادارہ نہیں چل سکتا،اگر آپ جلسے میں کچھ کہیں تو کوئی مسئلہ نہیں،اگر حکومت کا کام صرف روز فائر فائٹنگ ہے،اگر انہوں نے اس آگ کو مزید بھڑکایا تو یہ غلط ہے،اسی طرح اپوزیشن کا کام بھی اختلاف برائے اختلاف نہیں،ان کے کارکن ظاہر ہے اپنے لیڈر کی گرفتاری پہ خفا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام اپنے مسائل کے حل کے منتظر ہیں،خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی اگر جج کو انتقام کا نشانہ بنائے، چڑھائی کی دھمکی دے تو عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے،اگر حکومت بھی یہ سوچے کہ خان نے ہمارے ساتھ یہ کیا تو ہم بھی یہی کریں گے تو ایک روز کے لیے خوشی ہو گی،کل میں اور آپ بھی جیل میں ہوں گے،میثاق جمہوریت دستخط کیے, این ایف سی پہ دستخط کیے،بیرسٹر گوہر، آپ بھی اپنے لیڈر کے لیے کیس عدالت میں لڑیں یہاں عوام کے مسئلے حل کریں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے اندر ہماری بہت ذمہ داریاں ہیں،اختلافات چلتے رہیں گے کبھی ختم نہیں ہونگے،اختلافات کو ذاتی دشمنی نہیں بنانا چاہیے،میثاق جمہوریت میں رخنے ڈالے گئے،ہم نے نوے کی دہائی کی تلخیوں کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا،2014 کا دھرنا ہوا تو ساری پارٹیاں متحد ہوگئیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر قبضہ ہوا تو پچھلے دروازے سے آتے تھے،بلاول بھٹو نے جو کہا اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا،ہمارے اختلاف ہیں اور رہیں گے مگر ان اختلافات کو دشمنی نہیں بنانا چاہیے،محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پہ دستخط کیے،مجھے بھی اس تقریب میں شریک ہونے کا اعزاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ادارے کی بقا، حفاظت کے لیے تمام جماعتیں دھرنے کے موقع پہ ایک ہو گئیں،ہم اس ایوان میں آنے کے لیے ہم عقبی دروازہ استعمال کرتے تھے،شہباز شریف بھی قید رہے، زرداری ان کی ہمشیرہ قید رہیں،نواز شریف اور مجھ سمیت کئی رہنما گرفتار ہوئے،ہمارے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوتے تھے۔
وزیردفاع نے کہا کہ اس ایوان کی قدر و منزلت بحال رکھنا ہو گی،ہمارے اپوزیشن کے گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوں تو مجھے اعتراض نہیں،اگر اسد قیصر نے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے تو اس کا بدلہ نہیں لیا جانا چاہئے،جلسے میں جو زبان استعمال کی وہ نہیں ہونی چاہیے تھی،وہاں مریم نواز کا نام لے کر بدزبانی ہوئی،اگر آج بانی پی ٹی آئی گرفتار ہیں تو ہمارے لیڈر بھی گرفتار رہے۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ نواز شریف، احسن اقبال، شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل قید رہے،ہم نے کبھی یہ زبان استعمال نہیں کی،ہم نے کبھی نہیں کہا کہ جیل سے چھڑا کر لے جائیں گے،میں نے بہت تلخیاں اس ایوان میں دیکھی،آج جو تلخی ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھی،آپ کو کیس سے ضرور اختلاف ہو سکتا ہے،اختلاف پہ ریڈ لائن پار نہیں کرنی چاہئے،آپ بطور کسٹوڈین اپنا کردار ادا کریں،آئین کی بقا اور قوم کی وحدت ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہے،اس کا مطلب ہے بیرون ملک پاکستانیوں میں اعتماد میں اضافہ ہوا ہے،اس ایوان کو فنکشنل کرنے کے لیے رستہ نکالنا ہو گا ،جب آپ اپنے لیڈر کی نظر بندی کی بات کرتے ہیں تو آصف زرداری اور نواز شریف کی قید بھی یاد رکھیں۔
مصدق ملک
مصدق ملک نے کہا کہ خواتین اور بچیوں کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہا ہوں،ہم روز بات کرتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہماری عزت ہیں،جیسے مرد عزت دار ہے ویسے ہی عورت عزت دار ہے،جیسے مرد کو جائیداد میں حصہ ملتا ہے عورت کو بھی ملنا چاہیے،عورت کو جو عزت و توقیر ملنی چاہیے اس کو یہ ایوان دینا چاہتا ہے۔
حنیف عباسی
قومی اسمبلی اجلاس میں حنیف عباسی نے کہا کہ ہمارے ایک دو وزراء یہاں پر جوابات دیتے ہیں ان کو داد دیتا ہوں،ایک سینئر وزیر آئے ان کو پتہ نہیں تھا ڈاکومنٹس پڑھ رہے تھے،آپ عطا تارڑ پر کتنا بوجھ ڈالیں گے،متعلقہ وزیر کو جواب دینے کا پابند کریں،یہ بہت ضروری ہے بطور سیاسی ورکر کے بات کررہا ہے،متعلقہ وزیر کو پابند کرنے سے متعلق آپ رولنگ دیں۔
حنیف عباسی نے کہا کہ محمود خان اچکزئی نے وزیر اعظم کے خلاف بات کی،دکھ اس لیے ہوا کہ وہ محمود اچکزئی کو زیب نہیں دیتا تھا،پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کا مذاق اڑایا ،اگر میرے ساتھ یہ ہوتا پی ٹی آئی کی طرف منہ بھی نہ کرتا،میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ہمیشہ آپ کا احترام کیا۔
ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار
قومی اسمبلی اجلاس میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیاست ضرور کریں لیکن ریڈ لائن کو کراس نہ کریں،بلاول بھٹو نے چارٹر آف ڈیموکریسی کی بات کی وہ ہم سب کو یاد ہے،اس سے پہلے ہم نے تلخ ادوار گزرے تھے،مئی 2006 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوئے،تمام سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا، بانی پی ٹی آئی بھی موجود تھے،اس کے بعد اٹھارویں ترمیم ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم آپس میں ہی الجھاؤ میں لگے رہیں گے تو پھر کام کیا ہوگا،کمیٹی بنانے کی تجویز کی تائید کرتا ہوں،غلطیاں کسی سے بھی ہو سکتی ہیں، آگے کے لئے تو سبق سیکھیں،پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اسپیکر کی صوابدید ہے،بلاول بھٹو کی تجویز کی تائید کرتا ہوں ، اس کا اعلان کریں،حکومت اس کو سپورٹ کرے گی۔؎
تحریک انصاف کے رکن عاطف خان
قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن عاطف خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ سے جمہوریت کی چیمپیئن رہی ہے،پیپلزپارٹی کی جمہوریت کیلئے قربانیاں بے مثال ہیں،خواجہ آصف نے سیاسی رہنماوں کے جیلوں میں جانے کی بات فخر سے کی،سیاسی رہنماؤں کا جیلوں میں جانا قابل فخر نہیں ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ سب نے آج مثبت بات کی،کیا ہم پارلیمنٹیرین چارٹر آف پارلیمنٹ نہیں سائن کرسکتے،کیا ہم لوگ بہتری کی طرف نہیں جاسکتے،حکومت کے پرفارمنس پر بات کریں،ذاتیات سے نکل جائیں،اپوزیشن یہاں بات نہیں کرے گی تو کہاں کرے گی،کل جو ضمیر کہتا تھا اس کے مطابق کیا،میں نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو معطل کیا،سی ڈی اے کے اسٹاف کو معطل کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ میں تمام پارلیمانی رہنماؤں کا شکر گزار ہوں اللہ کرے کہ ہم بہتری لاسکیں،ہماری قیادت بیٹھے ناں بیٹھے کیا ہم اراکین کوئی چارٹر سائن نہیں کرسکے،لوگوں کے حقوق اور مسائل کی بات کریں،آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر بات کریں،ابھی بھی امید ہے کہ اچھا رستہ نکلے گا،اپوزیشن کو ہمیشہ زیادہ موقع دیا ہے سارا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔
انہو ں نے کہا کہ باہر جا کر بولنے کی بجائے یہاں بولیں،میں نے کل جو کیا ضمیر کے مطابق کیا،کچھ پردے رکھنا ضروری ہے،17دسمبر 2018 کو خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز بارے ایک خط آیا تھا،اس وقت حکومت تحریک انصاف کی تھی،کل غلط ہوا تھا تو آج غلط نہیں ہونا چاہیے،اس وقت وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز کی مخالفت کی،سپیکر نے پروڈکشن آرڈرز بارے تحریک انصاف کے دور کے مختلف خطوط پڑھ کر سنائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں ماضی کی حکومت کے اس اقدام کی حمایت نہیں کرتا،میں پروڈکشن آرڈرز کےلیے قانون کے مطابق اقدام کروں گا پارلیمنٹ کی عزت کےلیے آخری حد تک جاؤں گا،الزام لگایا گیا کہ اسپیکر بھی پرسوں والے واقعہ میں ملوث تھا،اسپیکر نے نو ستمبر کے معاملے کی تحقیقات اور پارلیمنٹ کے وقار کےلیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔
ایاز صادق نے مزید کہا کہ بھول جائیں ماضی میں کیا ہوا،ہم لوگوں کے حقوق اور ایشوز کی بات کریں۔ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں اپوزیشن ارکان کو اسمبلی میں بولنے کا زیادہ موقع دیا۔
قومی اسمبلی کے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے تحریک پیش جبکہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے 16 ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانے کی تجویز بھی پیش کردی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔