ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن اور ممبران احترام کے حق دار ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ ججز تضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب کی قومی اسمبلی کے 3 حلقوں میں دوبارہ گنتی کے معاملے میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران احترام کے حق دار ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ ججز اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے تضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں جبکہ ہر آئینی ادارہ اور آئینی عہدے دار احترام کا مستحق ہے، ادارے کی ساکھ میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہ احترام کے دائرہ کار میں فرائض سر انجام دے۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تین حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں 9 اور 10 فروری کو آگئی تھیں، 5 اگست 2023 کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اختیار دیا گیا، جب ہائیکورٹ میں کیس گیا اس وقت یہ ترمیم موجود تھی، ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق لیگی امیدواروں کی این اے 154، این اے 79 اور این اے81 سے کامیابی برقرار ہے، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دےدیا، سپریم کورٹ نے دو ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا، جسٹس عقیل عباسی نے فیصلےسے اختلاف کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے ن لیگی امیدواروں کی اپیلیں منظور کر لیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ مجموعی طور پر 47 صفحات پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ 24 صفحات اور اختلافی نوٹ 23 صفحات پرمشتمل ہے۔
یاد رہے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت مکمل ہونے کےبعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں این اے79 گوجرانوالہ تھری، این اے 81 گوجرانوالہ فائیو اور این اے 154 لودھراں کے مختلف پولنگ اسٹیشنزمیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق اپیلوں پرسماعت ہوئی تھی۔
ان حلقوں سے سنی اتحاد کونسل کے احسان اللہ ورک، چوہدری بلال اعجاز اور رانا محمد فراز نون منتخب ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ یکم مئی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے این اے 154 (لودھراں) سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی بطور رکن قومی اسمبلی جیت کا نوٹیفکیشن بحال کردیا تھا۔
16 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے حلقہ این اے 81 گجرانوالہ سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اظہر قیوم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے کر سنی اتحاد کونسل کے امیدوار کی رکنیت بحال کردی تھی۔
25 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 2 آزاد ممبر قومی اسمبلی کو قومی اسمبلی کے اپنے حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کے نوٹسز کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
بعدازاں مسلم لیگ ن کے عبد الرحمان کانجو، اظہر قیوم نہرا اور ذوالفقار احمد نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
عام انتخابات میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 3 آزاد امیدوار این اے 154 سے رانا فراز نون، این اے 81 گوجرانوالہ سے بلال اعجاز اور این اے 79 گوجرانوالہ سے احسان اللہ ورک کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔
ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو، اظہر قیوم نارا اور ذوالفقار احمد نے دوبارہ گنتی کے لیے الیکشن الیکشن سے رجوع کیا، دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے ن لیگ کے تینوں امیدواروں کو کامیاب قرار دیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آزاد اراکین نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن کے تحت چیلنج کیا، لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوں امیدواروں کو کامیاب امیدوار قرار دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف ن لیگ کے اراکین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے ن لیگ کے امیدواروں کی اپیلیں منظور کیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ن لیگ کے تینوں اراکین قومی اسمبلی کامیاب قرار پائے۔