ویب ڈیسک: فتنة الخوراج کے اندرونی تنازعات میں شدت سامنے آ گئی۔ 13 اور 14 نومبر2024ء کی رات، میران شاہ کے گاؤں تپی کی ایک مسجد میں زور دار دھماکے کے نتیجے میں قریبی مکانات منہدم ہو گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکے سے خواتین اور بچوں سمیت متعدد شہری جاں بحق جبکہ جیش عمری گروپ کے 5 اہم دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ فتنتہ الخوارج اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان دشمنی اور تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ کل رات ضلع شمالی وزیرستان کے علاقےتپی میں خارجی نور ولی گروپ کی طرف سے حافظ گل بہادر گروپ کے مرکز پرخود کش حملہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق آج صبح حکیم خیل گاؤں میں خارجی گل بہادر گروپ نے خارجی نور ولی محسود کے اہم کمانڈر ظفرالدین عرف مخلص کو جہنم واصل کر دیا۔
دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ فتنتہ الخوارج کی جانب سے عبادت گاہوں کو دہشتگردی کے مقاصد کیلے استعمال کرنا شرمناک ہے۔ شریعت کے دعویدار فتنة الخوراج مساجد کو دہشت گردی کے مقاصد کیلئے استعمال کر کے ان کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ فتنة الخوارج آبادی والے علاقوں میں پناہ لیتے ہیں اور معصوم شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کی واضح مثالیں ماضی سے بھی ملتی ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل فتنةالخوراج اپنی دہشتگردی کی کارروائیوں کو انجام دینے کیلئے رہائشی علاقوں میں پناہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں دھماکہ خیز مواد بھی تیار کرتے ہیں جو عام شہریوں کی جان و مال کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایسے واقعات فتنة الخوراج کے اندرونی اختلافات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں خوراج کے مختلف دھڑوں کی اندرونی لڑائیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
دفاعی ماہرین نے کہا کہ فتنة الخوراج کے حملوں میں عملاً حصہ لینے والے عام جنگجو افغانستان میں بیٹھی قیادت سے تنگ آچکے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت خارجی نور ولی محسود کی حالیہ منظر عام پر آنے والی آڈیو لیک ہے۔ فتنتہ الخوارج کی افغانستان میں محفوظ پناگاہیں افغان طالبان کی براہ راست مدد اور حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔
دفاعی ماہرین نے مزید کہا کہ فتنتہ الخوارج افغان سرزمین سے افغان طالبان کی مکمل حمایت سے پاکستان میں دہشتگرد حملے کرتے ہیں۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ فتنتہ الخوارج اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کے پاکستان کی طرف سے موثر کارروائیوں سے خوارجین کے لیے افغانستان کی زمین تنگ ہو گئی ہے"۔