ویب ڈیسک: پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکومت کی سر توڑ کوششیں،حکومتی اتحادکےتمام ارکان پارلیمنٹ کوپیرتک اسلام آباد رہنے کی ہدایت جبکہ حکومت کو دوتہائی اکثریت کیلئے جےیوآئی سمیت مزید4ارکان کی حمایت درکارہوگی۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس طلب کر لیا۔مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا وقت اور مقام تبدیل کردیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس اب پارلیمنٹ ہاؤس کی بجائے شام 7 بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔پہلے یہ اجلاس دوپہر 2 بجے ہونا تھا۔
ادھر وزیراعظم نے حکومتی اتحادی جماعتوں کےارکان پارلیمنٹ کوعشائیہ پرمدعوکرلیا ہے،وزیراعظم شہباز شریف آج ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو عشائیہ دیں گے،حکومت کی جانب سے پارلیمان میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے ارکان کی مکمل حاضری یقینی بنارہی ہے،حکومتی اتحادکےتمام ارکان پارلیمنٹ کوپیرتک اسلام آباد رہنے کی ہدایت کی گئی ہے،حکومت جےیوآئی کی مکمل حمایت حاصل کرنے کیلئے بھی متحرک ہے جبکہ حکومت کو دوتہائی اکثریت کیلئے جےیوآئی سمیت مزید4ارکان کی حمایت درکارہوگی۔
آئینی ترمیمی کا معاملہ، رات گئے حکومتی وفد کی ملاقات، مولانا اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے
دوسری جانب عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کیلئے حکومت متحریک ہے اور اب نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں حکومتی وفد نے رات گئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور انہیں ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے لیکن سربراہ جے یو آئی اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
وزیرداخلہ محسن نقوی پارلیمان میں نمبرگیم کیلئےایک بارپھرمتحرک ہوگئے۔ جے یو آئی نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی قانون سازی کومسترد کردیا۔
ذرائع کے مطابق مولانافضل الرحمان نے عدالتی اصلاحات لانے پر زور دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جے یوآئی کی پارلیمانی کمیٹی نےحکومتی تجویرمستردکی تھی۔
رات گئے حکومت وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار،اعظم نذیرتارڑاورمحسن نقوی نے ملاقات کی۔
وفدنےمولانافضل الرحمان کوآئینی ترمیم پرراضی کرنےکی کوشش کی لیکن فضل الرحمان نے ایک بار پھرفرد واحد کیلئے قانون سازی کو مسترد کردیا۔
مولانا فضل الرحمان کی حکومت کوعدالتی اصلاحات پیکج لانے کی تجویز دی۔ حکومتی وفد غور کے بعد آج مولانا فضل الرحمان کو جواب دے گا۔
عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کیا ہیں؟
عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی مدت ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کی جا سکتی ہے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پانچ ووٹ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے۔
تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار سے پانچ آزاد اراکین قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
سینیٹ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے نمبرز کیا ہیں ؟
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کا ذکر کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔
آئینی ترمیم کب پیش کی جائے گی؟
قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس آج بالترتیب سہ پہر 3 اور 4 بجے ہو گا۔ دونوں ایوانوں کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے تاہم آئینی ترامیم سے متعلق بل ایجنڈا آئٹمز میں شامل نہیں ہے۔ آئینی ترمیمی بلز ضمنی ایجنڈا کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے آج کے ہونے والے اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کیا ہے۔ آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈے کا حصہ ہے جبکہ پاکستان منرلز ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی اینجڈے میں شامل کیا گیا ہے۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم حکومت کسی بھی وقت سپلیمنٹری ایجنڈا کے ذریعے پیش کر سکتی ہے۔ اگر آج مجوزہ آئینی ترمیم پیش نہ کی گئی تو اسے اتوار کو پارلیمان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم لانے کی صورت میں قواعد و ضوابط معطل کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کرنا ہوگی۔
دوسری جانب سینیٹ سیکریٹریٹ نے آج ہونے والےاجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کیا ہے۔ سینیٹ اجلاس میں کوئی قانون سازی ایجنڈا کا حصہ نہیں ہے۔ ایوان بالا میں بھی آئینی ترمیمی بلز ضمنی ایجنڈا کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق نمبر گیم پوری ہونے پر سپلیمنٹری ایجنڈا کے طور پر آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کر سکتے ہیں۔
سینٹ اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا
سینیٹ اجلاس کے 5 نکاتی ایجنڈا آئٹمز کے مطابق سینیٹر اسحاق ڈار وقفہ سوالات مؤخر کرنے کی تحریک پیش کریں گے۔ سینیٹر ضمیر حسین گھمرو کا ضلع خیرپور میں گیس کی عدم فراہمی پر توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈا کا حصہ ہے جبکہ سینیٹرسیف اللہ ابڑو کا مختلف ڈسکوز میں چیئرمین و بورڈ ممبران کی عدم تعیناتی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ اجلاس میں صدر مملکت کے مشترکہ ایوان سے خطاب کی تحریک پر بحث بھی کی جائے گی۔
ججز کی تعدادکیا ہوگی؟
پاکستان کی قومی اسمبلی نے منگل تین ستمبر کو ججز کی تعداد سے متعلق بل موخر کر دیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے ججز کی کل تعداد 23 کرنے کا کہا گیا ہے۔
بل کی کاپی کے مطابق سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنا ہے۔ ’اس ایکٹ کو سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ترمیمی بل 2024 کہا جائے گا جو فوراً نافذ ہو جائے گا۔ ایکٹ کے سیکشن دو کے متبادل کے طور پر سپریم کورٹ ججوں کی تعداد ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 22 ہو گی۔‘