’ویڈیو میری نہیں، دنیا میں ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں‘

’ویڈیو میری نہیں، دنیا میں ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں‘

اسلام آباد: عثمان مرزا سمیت متعدد ملزمان کی جانب سے لڑکا لڑکی پر ہونے والے جنسی تشدد کیس میں منحرف گواہان نے اپنے ساتھ کوئی بھی واقعہ پیش آنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس ویڈیو میں وہ نہیں بلکہ کوئی اور جوڑا ہے۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ای الیون لڑکے لڑکی جنسی تشدد کیس کی سماعت کی۔ منحرف ہونے والے متاثرہ لڑکا لڑکی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کل دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

فاضل جج نے ملزمان کی چھ جولائی کو وائرل ہونے والی ویڈیو عدالت میں بند کمرے میں چلانے کا فیصلہ کیا اور سماعت ان کیمرہ ڈیکلیئر کردی گئی۔ کمرہ عدالت سے غیر متعلقہ افراد اور صحافیوں کو باہر نکال دیا گیا۔ مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پر پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے جرح کی۔

منحرف گواہ اور متاثرہ لڑکے اسد نے بتایا کہ میری تعلیم انٹر ہے اور کوئی کام نہیں کرتا، جب یہ واقعہ ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا کیس شروع ہوا تو پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا، میری مالی معاملات بہت خراب ہیں اور والدین میرے مالی خرچہ چلا رہے ہیں، اس مقدمہ کے اندراج کے بعد تھانہ گولڑہ میں 4 سے 5 دفعہ گیا تھا، 8 جولائی کو میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ صرف سادہ پیپر پر دستخط انسپکٹر شفقت نے لیے تھے۔

پبلک پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ بیان حلفی میں آپ کہتے ہیں ویڈیو میں نظر آنیوالے وہ ملزمان نہیں ، کیا آپ کو واقعہ یاد ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں اس دن کیا ہوا تھا؟۔

اسد رضا نے کہا کہ جی بالکل مجھے وہ واقعہ یاد ہے، ابھی میں اس واقعہ کی تفصیل نہیں بتا سکتا، نہ یاد ہے میں نے اور سندس نے کس رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔ پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے متاثرہ لڑکی پر ان کیمرہ پروسیڈنگ میں جرح مکمل کرلی۔

ملزم کے وکیل شیر افضل مروت نے منحرف گواہ اور متاثرہ لڑکی سندس سے جرح کی تو اس نے بتایا کہ بی ایس کمپیوٹر سائنس تعلیم ہے ، وقوعہ کے روز کسی نے میرے ساتھ زیادتی نہیں کی، وقوعہ کے روز میں اس اپارٹمنٹ نہیں گئی بلکہ اپنے گھر میں تھی، کیمرے میں نظر آنے والی لڑکی کو میں نہیں جانتی اور وائرل ویڈیو میں نے نہیں دیکھی، دنیا میں ایک چہرے کے سات لوگ ہوتے ہیں جو ویڈیو میں نظر آرہی ہے وہ ان میں سے کوئی ایک ہے، میں نے عمر بلال مروت سے ایک کروڑ کا مطالبہ نہیں کیا، وقوعہ کے دن میں بے روزگار تھی ، میں ویڈیو میں جب نظر ہی نہیں آرہی تو اس کا تعلق ہی نہیں بنتا کہ جو کمپین پورے پاکستان میں میرے حق میں چلی۔

لڑکی کے پہلے سے بالکل مختلف بیان پر عدالت نے ویڈیو دوبارہ کمرہ عدالت میں چلوائی جس کے دوران صحافیوں اور غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔ ملزم کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس خاتون اور اس کے خاوند کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے ، یہ پورے نظام انصاف کو جھٹلا رہی ہے۔

لڑکی نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتی مجسٹریٹ نے جو 164 کا بیان ریکارڈ کرایا اور اس کے علاوہ جو بیانات ہیں، وائٹ پیپر پر مجھ سے دستخط انگوٹھے پولیس نے لگوائے تھے، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اسد رضا سے نکاح ہوا ویڈیو وائرل ہونے سے پہلے رشتہ آیا تھا، شادی سے پہلے میری اسد رضا سے میری فیملی کے سامنے ملاقات ہوتی رہی ہے، میں اسد رضا کے ساتھ رات گزارنے کے لیے اپارٹمنٹ نہیں آئی تھی، ہماری پسند کی نہیں بلکہ فیملی کی شادی ہے وہ میرا رشتہ دار بھی نہیں، میں نہیں جانتی وائرل ویڈیو کی وجہ سے کچھ لوگ جیل میں ہیں میں نوکری تلاش نہیں کر رہی تھی، میں نے کوئی بیان ہی نہیں دیا مجھے کچھ پتہ نہیں، ایف آئی اے نے جس ویڈیو کو درست قرار دیا میں نہیں جانتی، میری اس کیس کے حوالے سے کسی بھی پولیس والے سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

لڑکی نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد اور دوسرے پولیس آفیشلز سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی، میں نے آج تک کسی سے کوئی پیسے نہیں لیے بیرون ملک جانے کے لیے کسی این جی او سے رابطہ نہیں کیا، میں نہیں جانتی کس نے کب میرے دستخط اور انگوٹھا لیا، پولیس والے وائٹ پیپر پر ہم سے دستخط انگوٹھا لے کر گئے ہیں، میں نے نہیں جانتی پولیس نے انگوٹھا اور دستخط کس جگہ پر لئے تھے، میں اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد آتی رہتی ہوں۔

ملزم کے وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ اب آپ اپنے والدین کو ساتھ ملا رہی ہیں اگر اس روز بھی وہ ساتھ ہوتے تو بات یہاں تک نا پہنچتی۔

لڑکی نے کہا کہ میرا والد ڈسپوزیبل چیزوں کی دوکان چلاتا ہے، ایسے سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں جو متعلقہ نہیں، ایک کروڑ 75 لاکھ روپے میرے چچا کے بنک اکاؤنٹس میں ٹرانسفر نہیں ہوئے، میرے پاس موبائل ہے سوشل میڈیا ایپس میرے موبائل پر ہیں، ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹا گرام استعمال کرنے کا وقت نہیں ہوتا میں ہاؤس وائف ہوں، فیملی نے کہا تھا یہ آپ کی ویڈیو ہے میں نے کہا تھا نہیں میری نہیں ہیں۔

ملزم کے وکیل شیر افضل مروت نے سوال کیا کہ آئی لو یو تھا یا نہیں۔ اس پر عدالت میں قہقہے لگے۔ متاثرہ لڑکی کے بیان پر وکیل کی جرح مکمل ہوگئی۔ ملزم کے وکیل نے متاثرہ لڑکے اسد رضا کے بیان پر جرح کی تو اسد نے بتایا کہ ہماری ارینج میرج ہے ، ہم رشتہ دار نہیں لیکن جانتے تھے۔ وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ کی پہلی محبت تھی؟۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ یہ سوال رہنے دیں۔

وکیل نے سوال کیا کہ ویڈیو کلپ میں کہاں پر آپ کو زیادہ درد کی مار پڑی تھی؟۔ متاثرہ لڑکے نے جواب دیا کہ میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ وکیل نے کہا کہ آپ اگر جواب نہیں دیں گے تو جرم ہے۔

متاثرہ لڑکے نے کہا کہ وقوعہ کے روز میں اسلام آباد میں کام پر تھا اور فری لانس رئیل اسٹیٹ ایجنٹ تھا، ایف الیون سیکٹر میں رئیل اسٹیٹ کا کام کرتا تھا زندگی میں کبھی سیل کا سودا نہیں کرایا۔ وکیل نے کہا کہ یہ لڑکا ملزمان کا نوکر تھا اور میں اس سے کوئی بھی سوال کر سکتا ہوں۔

لڑکے نے کہا کہ ویڈیو میں ہونے والی زیادتی جیسا ہمارے ساتھ کوئی سین نہیں ہوا، بیان بدلنے کے کوئی پیسے نہیں لیے، میں عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو نہیں جانتا، وقوعہ کے روز میں اس اپارٹمنٹ نہیں گیا تھا، ملزمان نے اپنے حق میں عدالت میں حلف نامے پر بیان دینے سے متعلق نہیں کہا، بیان حلفی دینا میرا اپنا فیصلہ تھا، پولیس کو میں نے بیان نہیں دیا گولڑہ پولیس اسٹیشن تین چار دفعہ گیا تھا، پولیس آفیسر نے تھانے میں ویڈیو نہیں دیکھائی تھی ، انٹرنی ٹ پر دیکھی مگر تاریخ یاد نہیں، میں لیڈی اسسٹنٹ کمشنر کے آفس نہیں گیا تھا ، بیرون ملک جانے کا پروگرام ابھی سے نہیں بلکہ پانچ سال سے ہم پروگرام بنا رہے تھے، کس ملک میں جانا ہے ابھی اس پر فیصلہ نہیں کیا، میرے رشتے داروں نے میری ویڈیو سے متعلق پوچھا لیکن میں نے کہا ویڈیو میں نظر آنے والا میں نہیں ہوں۔

وکیل نے بار بار سوال کیا کہ ویڈیو میں آپ کی طرح کا نظر آنے والا کون ہے ؟۔ اسد نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا کون ہے، چھ جولائی2021 سے 11 جنوری 2022 تک کبھی نہیں کہا کہ یہ ہمارا کیس نہیں ہے، ہم نے شروع سے ہی کہا تھا کیس نہیں کرنا چاہتے۔ وکیل نے منحرف ہونے والے متاثرہ گواہ لڑکے اور لڑکی کے بیان پر جرح مکمل کی جس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے دونوں گواہوں کو جانے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر کیس کے تفتیشی افسر کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر لیا۔ کیس کی مزید سماعت 25 جنوری کے لیے ملتوی کردی گئی۔

Watch Live Public News