ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے ریمارکس میں کہا کہ مسٹر میمن کیا آپ کو عدالت کا آرڈر معلوم نہیں تھا، کیا آپ کی مرضی سے بینچز بنیں گے، آپ کے وکیلوں کی وجہ یہ کیس تاخیر کا شکار ہوا، دوسرے شوکاز نوٹس کا جواب پیر تک دیں جبکہ ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن نے کہا، میں عدالتی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا، اپنے آپ کو اس عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر، ایس پی فاروق بٹر اور پراسیکیوٹر قیصر امام بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے استفسار کیا کہ مسٹر میمن کیا آپ کو عدالت کا آرڈر معلوم نہیں تھا؟۔
عرفان نواز میمن نے کہا کہ میں عدالتی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
جسٹس بابر ستار نے ڈی سی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے 69 ایم پی اوز آرڈر جاری کیے، کیا ان کے ماں باپ نہیں تھے کیا انہوں نے عمرے پر نہیں جانا تھا، آپ کی مرضی سے بینچز بنیں گے۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ آپ اگر غصے میں ہیں تو کچھ دیر بعد کیس سن لیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں بالکل غصے میں نہیں ہوں، میں صرف قانون کی بات کررہا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ کو نہیں معلوم آپ کے وکیلوں کی وجہ یہ کیس تاخیر کا شکار ہوا، عدالت نے دسمبرمیں آرڈر کیا تھا کہ جنوری میں روزانہ کی بنیاد پر سن کرفیصلہ کریں گے، آپ کی وجہ سے اس میں مزید تاخیر ہوئی ، آپ کو جو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کیا ہے، اس کا جواب پیر تک دیں۔
ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ اپنے آپ کو اس عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، اس کیس میں 18 سماعتیں ہوئیں، کسی سماعت میں غیر حاضر نہیں ہوا۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل رضوان عباسی نے ڈی سی اسلام آباد پر عائد فرد جرم کا متن پڑھ کر سنا تے ہوئے کہا کہ یہ چارج کریمنل توہین عدالت پر عائد کیا گیا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے گزشتہ برس ایک غلطی کی مجھے لگا تھا کہ اب سمجھ گئے ہوں گے۔
ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن نے کہا کہ میں عدالت کی ہر سماعت پر پیش ہوا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس پیش ہونے کے علاوہ کیا آپشن موجود تھا؟ یہ کیس صرف آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے چل رہا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ سب مذاق ہو رہا ہے، آپ نے 970 دنوں کی نظربندی کے 67 ایم پی او آرڈر جاری کیے، یہ آپ کا بہت اسٹوپڈ ایکشن تھا اورآپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل رضوان عباسی نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ کیس دوسرے بنچ کو منتقل کیا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کی استدعا مسترد کر رہا ہوں، دلائل دیں، کیا اب آپ کی مرضی کے بینچ بنیں گے؟۔
راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے جو اختیار استعمال کیا وہ توہین عدالت نہیں تھی، عدالت نے ایم پی او جاری کرنے سے نہیں روکا تھا ، 3 ماہ کے بعد دوبارہ ایم پی او جاری ہوا، ڈی سی پنڈی نے بھی ایم پی او جاری کیا تھا لیکن لاہورہائیکورٹ نے کوئی توہین عدالت کارروائی شروع نہیں کی۔
جسٹس بابر ستار نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ ڈی سی پنڈی کو بھی مروانا چاہتے ہیں۔
وکیل راجہ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ میں کسی کو نہیں مروانا چاہتا، میں یہ کہہ رہا ہوں توہین عدالت کی ہے توڈی سی پنڈی نے کی ہے، ایم پی او جاری ہونے سے پہلے شہریار آفریدی پر 2 مقدمے درج ہوچکے تھے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے ایم پی او جاری کرتے تو ضمانت بھی نہیں ہوئی تھی۔
وکیل ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ ملک بھرمیں 9 مئی کے بعد غیر معمولی صورتحال تھی۔
جسٹس بابرستار نےریمارکس دیئے کہ کیا ڈسٹرکٹ اینٹلی جنس کمیٹی نے پنڈی ڈی سی کو نہیں بتایا اسلام آباد کے ڈی سی کو بتادیا، جس دنوں انہوں نے ایم پی اوجاری کیا اسی دن ڈی سی پنڈی نے ایم پی اوواپس لیا تھا، لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں پنڈی کے ڈی سی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیرالتوا تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں ایم آئی ،آئی ایس آئی اور ٹرپل ون بریگیڈ کے نمائندگان ڈی سی پنڈی کو نہیں کہہ رہے تھے، آپ کہہ رہے ہیں ڈسٹرکٹ اینٹلی جنس کمیٹی نے اسلام آباد کے ڈی سی کو کہا ایم پی اوجاری کریں۔
وکیل ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد جی ایچ کیو چوک اور لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔
عدالت نے ڈی سی کے وکیل راجہ رضوان عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دن انہوں نے کس کس کے خلاف آرڈرز پاس کیے تھے؟۔
وکیل راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ 5 اگست کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ تھا، میں نے عدالتی حکم عدولی نہیں کی بدنیتی بھی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایک ایم پی او کالعدم ہونے کے بعد کتنے ایم پی او ڈی سی نے جاری کیے؟ تقریبا 50 سے زائد ایم پی او ڈی سی نے جاری کئے کیا ایک بھی ایم پی او عدالت میں قائم رہا ؟۔
وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ میں سزا کے بعد گرفتار کیا گیا تو خدشہ تھا کہ امن وامان کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کے احکامات تو سپریم کورٹ نے جاری کیے تھے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے وکیل نے کہا کہ جی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا تھا کہ کیسے عدالتی احاطے سے گرفتاری ہوسکتی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ 40 فیصلے ہائیکورٹ نے کیے ان میں سب بینچز نے کہا آپ اس طرح ایم پی او جاری نہیں کرسکتے۔
وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے ایم پی او آرڈر جاری کرنے میں کوئی بدنیتی نہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ 16 مئی کو پہلا ایم پی او آرڈر کاالعدم قرار دیا گیا، اس کیس میں شوکازنوٹس جاری ہونے کے بعد بھی ایم پی اوآرڈرجاری کیے گئے، عدالت زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتی ہے کہ آرڈر درست نہیں، جب ہم نے ان کی ایم پی او آرڈر جاری کرنے کی پاور ختم کی تو یہ رکے۔
وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ اگریہ آرڈر پاس نا کرتا اورامن و امان کی ایسی صورتحال ہوتی کہ کوئی جان چلی جاتی، اس صورت میں عدالت نے ہی کہنا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے شہریار آفریدی کا حالیہ بیان عدالت کے سامنے پڑھتے ہوئے کہا کہ شہریار آفریدی نے پولیس حکام انتظامیہ کو دھمکیاں دیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 85 دن آپ نے اس کوجیل میں رکھا تو وہ یہ کہتا ڈی سی صاحب اللہ آپ کا وقار اور بلند کرے، اللہ آپ کو اور عزت دے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ڈپٹی کمشنرکے ایم پی اوآرڈرزخلافِ قانون قراردے کرکالعدم کرتی رہی اور وہ پھر بھی بغیر سمجھے کہ اُن کے آرڈرز غلط ہیں مزید ایم پی او جاری کرتے رہے، آپ نیک نیتی کی بات کررہے ہیں۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کے وکیل شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کردی۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پولیس کے پاس تو انفارمیشن ہوگی کہ شہریار آفریدی نے جیل میں بیٹھ کرکس کو اشتعال دلایا؟ کیا آپ نے ان لوگوں کے خلاف بھی ایم پی اوجاری کرنے کی سفارش کی؟۔
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے بتایا کہ ہمارا فوکس لیڈرشپ پر تھا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ ایک بندہ پہلے ہی جیل میں ہے تو اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ دوبارہ جیل میں ڈالیں گے؟۔اگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئی آرڈر پاس کرتا ہے تو ذمہ داری اس کی ہے ،اگر ایس ایس پی آپریشنز کچھ کرتا ہے تو ذمہ داری اس کی ہے، ایس ایس پی آپریشنزتوڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹی کے ممبرتھے، ان کے پاس براہ راست معلومات تھیں، جمیل صاحب کیا آپ نے ان افراد کے خلاف کوئی ایکشن لیا جنہیں شہریارآفریدی نے جیل میں بیٹھ کراکسایا۔
جسٹس بابر ستار نے مزید ریمارکس دیئے کہ " میں ہائیکورٹ میں بیٹھ کر فیصلہ کرتا ہوں تو میں اسکا ذمہ دار ہوں اور اگر میں فون کال پر فیصلے کرتا ہوں اور بعد میں آٹو بائیوگرافی میں لکھ دوں گا تو پھر بھی ذمہ دار میں ہی ہوں گا، ڈپٹی کمشنر بھی اگر کسی کی فون کال پر فیصلے کرتے ہیں تو ذمہ دار وہ خود ہی ہونگے "۔
جمیل ظفر نے کہا کہ ہمارا فوکس تھا کہ لیڈر شپ کو احتجاج سے روکا جائے، کسی اور کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جمیل صاحب اپنی تعیناتی کے بعد جو آپ نے ایم پی او آرڈرز کی سفارشات بھیجی ہیں ،وہ ڈیٹا دے دیں۔
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ محرم کے دنوں میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ڈی سی صاحب کو ایم پی اے آرڈرز کی سفارش کی جاتی ہے،عدالتی احکامات میں ایس ایس پی کے حوالے سے کوئی آبزرویشن شامل نہیں۔
ایس ایس پی جمیل ظفر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
توہین عدالت کیس میں فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ پراسکیوٹر قیصر امام کچھ دیر میں دلائل شروع کریں گے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پراسیکیوٹر کے عدالت آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
وقفے کے بعدکیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈی سی اسلام آباد کے وکیل رضوان عباسی عدالت پیش ہوئے۔
ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل، ایس پی صدر فاروق بٹر عدالت کے روبرو پیش ہوگئے۔
پراسیکیوٹر قیصر امام نے دلائل کا آغاز کردیا۔
واضح رہے کہ عدالتِ عالیہ نے گزشتہ روز ڈی سی اسلام آباد کے وارنٹِ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد ہونے کے باوجود عدم حاضری پر شوکاز بھی جاری کیا تھا اور ڈی سی اسلام آباد کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔