حسان عبداللہ
طالبان نے افغانستان میں غیر متوقع کامیابیاں حاصل کرکے نیٹو افواج سمیت دنیا بھر کو حیران کر دیا ہے، کابل میں اپنا تسلط جمانے کے بعد طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ پوست کی کاشت پر پابندی لگا دیں گے تاہم ماضی میں وہ اس فصل کے ذریعے بھرپور مالی فوائد اٹھاتے رہے ہیں.
طالبان کو دنیا کی سب سے طاقتور نیٹو افواج سے لڑائی کے لیے درکار وسائل افیون کی ٹریفکنگ سے ہی حاصل ہوتے رہے ہیں ، آج اسی متعلق امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے، طالبان اور منشیات کے دھندے کے گٹھ جوڑ کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالیں گے.ماضی میں طالبان کے ہاتھوں چلائے جانے والے معاشی نظام کا انحصار افیون کی پیداوار اور اس کی ترسیل سے جڑے کاروباروں پر ہوتا رہا ہے، بنیادی طور پر پوست ہیروئن کی پیداوار کے لیے ایک بنیادی مرکب ہے جسے افغانستان میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے ،اس دوران پوست سے افیون تیار کی جاتی ہے جو بعد میں ہیروئن میں تبدیل کی جاتی۔ پوست افغانستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے اور طالبان نےافیون کی کمائی کو ہتھیاروں کی خریداری، آمدنی جمع کرنے اور ملک پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
افغانستان میں پوست کی پیداوار میں گزشتہ 15 برس میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے. اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان زیادہ تر افیون کی پیداوار، منشیات کی اسمگلنگ، بھتے اور اغوا برائے تاوان جیسی مجرمانہ سرگرمیوں سے مالی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔منشیات کی اسمگلنگ سے ہونے والی کمائی ممکنہ طور پر 46 کروڑ ڈالرز سالانہ سے زائد ہے۔سنہ 2017 میں افغانستان میں پوست کی ریکارڈ پیداوار کے بعد اقوامِ متحدہ نے پیشنگوئی کی تھی کہ اب زیادہ معیاری اور کم قیمت والی ہیروئن برطانیہ سمیت عالمی بازار میں پہنچے گی۔
افغانستان کے افیون سروے کے مطابق ،زرعی اراضی کا بڑا حصہ پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ زیادہ منافع بخش نقد فصل ہے. اتحادی افواج اور اقوام متحدہ کی طرف سے کئے گئے افغانستان افیون سروے کے مطابق 2020 میں تقریبا 224،000 ہیکٹر (55،3516 ایکڑ) کے ساتھ افیون کی پیداوار میں 2019 کے مقابلے میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان میں زیادہ تر صوبوں میں پوست کی کاشت کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ایک ہیکٹر میں 28 کلو گرام افیون پیدا ہوتی ہے، یعنی پچھلے سال مجموعی طور پر 6،300 ٹن افیون کاشت کی گئی تھی۔
پچھلے سال افیون کی پیداوار کی کل قیمت 256 ملین ڈالر تھی۔ افغانستان کی جی ڈی پی کا کم از کم پانچواں حصہ افیون کی تجارت سے آتا ہے۔افغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میںہوتا ہے اور افغانستان کی آدھی معاشی سرگرمیاں زراعت پر مشتمل ہیں ، جبکہ یہ ایک ایسے ملک میں کم از کم نصف آبادی کو روزگار مہیا کرتی ہے جہاں پانچ میں سے دو افراد اب بھی بے روزگار ہیں۔دوسری فصلوں کے مقابلے میں پوست اور اس کی پیداوار کے لیے زیادہ افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔
افغانستان میں افیون کی کاشت کب شروع ہوئی؟
افغانستان کو "نارکو اسٹیٹ" میں تبدیل کرنا 1980 کی دہائی میں ملک پر سوویت قبضے کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ سے شروع ہوا۔1986 میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک رپورٹ پیش کی کہ افیون "جنگ زدہ ملک میں ایک مثالی فصل ہے کیونکہ اس میں بہت کم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ فصل تیزی سے بڑھتی ہے اور اس کی آسانی سے نقل و حمل اور تجارت ہوتی ہے۔
افیون کی پیداوار بڑھنے کے بعد سی آئی اے نے دوسری طرح سے دیکھا تو پتہ چلا کہ بات ہاتھ سے نکل چکی ہے، سی آئی اے کے ایک سابق افغان آپریشن ڈائریکٹر چارلس کوگن نے بعد میں کہا "ہمارے پاس واقعی وسائل نہیں تھے اور نہ ہی وقت تھا کہ منشیات کی تجارت پر نظر رکھ سکیں۔"
دوسری جانب جب 2001 میں جنگ کے بعد افغانستان میں آمدنی کے دیگر ذرائع کی کمی ہوئی تو ملک کے بہت سے کسان اس بات پر مجبور ہو گئے کہ وہ افیون کا سہارا لیں ، صنعت کو روکنے کے لیے اتحادی افواج کی کوششوں کے باوجود یہ کاروبار جاری رہا۔ کئی مشتبہ منشیات فروش سابق صدر حامد کرزئی کی حکومت قائم ہونے پر اعلیٰ عہدیدار بھی بنے۔
طالبان کے بارے میں آنے والی خبروں کے مطابق یہ دنیا بھر میں افیون اور ہیروئن کی بڑھتی ہوئی کاشت سے لے کر کاشت کاروں اور منشیات کی لیبوں پر ٹیکس لگانے اور ترسیل کے لیے اسمگلروں سے فیس وصول کرنے کے ہر عمل میں شامل رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکی سپیشل انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ طالبان اپنی سالانہ آمدنی کا 60 فیصد غیر قانونی منشیات سے حاصل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان نے 2000 میں پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی اور اب بھی انہوں نے یہی اعلان کیا ہے. پوست کی کاشت پر پابندی کے تین ماہ بعد ستمبر 2000 میں طالبان نے ایک وفد نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر بھیجا تاکہ سفارتی شناخت کے لیے اس ذریعے کوشش کی جائے کہ انہوں نے منشیات کی اسمگلنگ پر پابندی لگا دی ہےتاہم اقوام متحدہ نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے طالبان پرتجارتی پابندیاں لگا دی.
ماضی میں سوویت یونین کیخلاف لڑتے ہوئے کابل اور دوسرے بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے سی آئی اے نےطالبان جنگجوؤں کو مالی اعانت فراہم کی جنہوں نے افیون کی تجارت کو بھی کنٹرول کیا اور جب طالبان کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے بڑے پیمانے پر اپنی منشیات کی تجارت شروع کی۔اقوام متحدہ کے 2007 کے افغانستان افیون سروے سے پتہ چلا ہے کہ طالبان جنگجو 2004 تک افیون کی تجارت میں واپس آگئے تھے کیونکہ انہوں نے "اسلحہ ، رسد اور ملیشیا کی تنخواہ کے لیے رقم کو منشیات کی معیشت کے وسائل سے نکالنا شروع کیا تھا"۔ طالبان نے افیون کی ٹریفک سے "ٹیکس" اکٹھا کیا اور ہر فصل کے ساتھ دیہات سے نوجوان جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے زیادہ پیسے کمائے ، کیونکہ وہ زرعی مزدوروں سے کہیں زیادہ کما سکتے تھے۔
2015 تک طالبان کا افغانستان کے آدھے سے زیادہ دیہی علاقوں پر کنٹرول تھا اور اگلے سال اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ افغان حکومت کے افسران افیون کے منافع پر قابو پانے کے لیے طالبان سے لڑ رہے ہیں۔ بعدازاں امریکہ نے افغانستان کی منشیات کی تجارت کو روکنے کی کوشش میں 8.6 بلین ڈالرز سے زیادہ خرچ کیے ہیں تاہم اس رقم کے خرچ سے متعلق بھی تحقیق ہونی چاہیے. یہ بات بھی اہم ہے کہ دنیا کی سپر پاور امریکا نے اپنے مفادات کے لیے پورے خطے کو منشیات کی دلدل میں دھکیل دیا جس کے اثرات اب بھی نظر آ رہے ہیں.