ٹک ٹاک کون خریدے گا؟

ٹک ٹاک کون خریدے گا؟

واشنگٹن حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ٹِک ٹاک کمپنی امریکہ میں اپنی کام جاری رکھنا چاہتی ہے تو اسے خود کو فروخت کرنا ہو گا۔ اس کی فروخت کے امکانات کتنے ہیں، مسائل کون سے ہیں اور اتنی زیادہ قیمت کون ادا کر سکتا ہے؟140 ممالک میں ایک ارب صارفین کے ساتھ دنیا کے سب سے کامیاب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سے ایک۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی ڈیل لگ رہی ہے۔ لیکن چینی ملکیت والی ٹک ٹاک محض کوئی مختصر ویڈیو شیئرنگ ایپ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا رجحان بن چکی ہے، جو سوشل میڈیا کو ہی تبدیل کر رہا ہے اور لوگوں کے کمیونیکیشن انداز کو ہی بدل رہا ہے۔

امریکہ ٹِک ٹاک کیوں خریدنا چاہتا ہے؟

امریکی حکومت اب ٹک ٹاک کو فقط تفریح کا ذریعہ ہی نہیں سمجھتی بلکہ اس کی نظر میں یہ خبروں اور معلومات کا ایک پلیٹ فارم بھی ہے، جسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے امریکہ میں روایتی میڈیا جیسے کہ ریڈیو یا کیبل ٹی وی اسٹیشنوں کی غیر ملکی ملکیت پر پابندیاں تھیں۔ پالیسی سازوں کے لیے ٹک ٹاک پر پابندیاں 21 ویں صدی کا منطقی نتیجہ ہیں۔

13 مارچ کو امریکی ایوان نمائندگان نے ٹک ٹاک کے امریکہ میں کاروبار کو چھ ماہ کے اندر اندر فروخت کرنے یا ملک میں ایپل اور گوگل ایپ اسٹورز میں اس پر پابندی عائد کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ تاہم اسے قانون بننے کے لیے سینیٹ کی منظوری درکار ہے۔ دریں اثنا صدر جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر یہ قانون کانگریس سے منظور ہو جاتا ہے، تو وہ اس پر دستخط کر دیں گے۔ ٹک ٹاک انتظامیہ ابھی اتنظار میں ہے کہ مستقبل قریب میں منظرنامہ کون سی شکل اختیار کرتا ہے تاہم اس کے ممکنہ خریداروں کی فہرست بھی کوئی زیادہ طویل نہیں ہے۔

امریکہ اور ٹک ٹاک کی مختصر تاریخ

امریکہ میں ٹک ٹاک کو خریدنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2020 میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کو اپنی یہ ذیلی کمپنی ایک امریکی سرمایہ کار کو فروخت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اوریکل کے ساتھ معاہدہ قریب ہے لیکن وہ کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔

تب سے ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے امریکی صارفین کے ڈیٹا کو بائٹ ڈانس سرورز سے امریکہ کے مقامی سرورز پر منتقل کرنے کے لیے کافی حد تک کام کیا ہے۔ اس اقدام کو 'پروجیکٹ ٹیکساس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تھیوری یہ ہے کہ اس طرح صارفین کے ڈیٹا کو چین کی نگرانی سے دور رکھا جائے گا۔

اٹلانٹا میں جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائبر سکیورٹی کے ماہر ملٹن مولر جیسے بہت سے ماہرین تمام شواہد کو دیکھنے کے بعد شک کرتے ہیں کہ صارفین کے ڈیٹا کو کوئی حقیقی سکیورٹی خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے امریکی سیاست دان اور حکومتی انٹیلیجنس ایجنسیاں مطمئن نظر نہیں آتے اور وہ ٹک ٹاک کے خلاف مزید اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔

ٹک ٹاک کون خریدنا چاہے گا؟

ٹک ٹاک کو مکمل یا اس کا صرف امریکی حصہ خریدنا کوئی معمول کا کاروباری لین دین نہیں ہو گا۔ یہ ایک جیو پولیٹیکل مائن فیلڈ ہو گا۔ کیا بائٹ ڈانس پھر بھی پس منظر میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی اکثریتی شیئر ہولڈر کمپنی ہو گی؟ اس کے طاقتور الگوردم کو کون چلائے اور اپ ڈیٹ کرے گا؟

انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائبر سکیورٹی کے ماہر ملٹن مولر کے مطابق، ''خیالی طور پر تو یہ ممکن ہے لیکن اس کی فروخت انتہائی پیچیدہ ہو گی یا اس کا امکان ہی نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ''شاید چین کی حکومت اس کی اجازت نہ دے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عالمی سطح پر باہم منسلک اس سوشل میڈیا سروس کے صرف ایک حصے کو خریدنے سے کیا حاصل ہو گا یا اس کا کیا مطلب ہو گا؟‘‘

بائٹ ڈانس انتظامیہ قانونی لڑائی کے لیے تیار لگتی ہے۔ دوسری جانب چین کی حکومت بھی اس ایپ کے پیچھے کارفرما ٹیکنالوجی پر برآمدی پابندی لگا کر اس کی فروخت کو روکنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس کے الگوردم کے بغیر ٹک ٹاک کی مانگ میں کمی ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی دنیا میں کسی ایک ایپ پر پابندیاں عائد کرنا اور اس کی رسائی کو محدود بنا دینا ایک مشکل امر ہے۔ ایپ اسٹورز کو صارفین کے لیے تمام نئے ڈاؤن لوڈز کو بلاک کرنا اور جن کے پاس پہلے ہی سے یہ ایپ موجود ہے، ان کے اپ ڈیٹس کو روکنا ہو گا۔

ایک مشکل مرحلہ

ٹک ٹاک پر پابندی کوئی آسان مرحلہ نہیں ہو گا۔ امریکہ میں کوئی بھی پابندی یقینی طور پر آئینی بحران کا باعث بنے گی۔ مولر کے مطابق، ''یہ امریکی صارفین ہوں گے، جن کی آزادی رائے کو دبایا جائے گا، یہ کوئی غیر ملکی یا چینی حکومت نہیں ہو گی۔‘‘ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود ٹک ٹاک کا امریکی کاروبار 50 بلین ڈالر سے زیادہ میں فروخت ہو سکتا ہے۔ ایپل، ایمیزون، گوگل، میٹا، مائیکروسافٹ یا نیٹ فلکس کی طرح صرف چند کمپنیاں ہیں، جو اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ ہفتے ہاؤس ووٹ کے بعد سابق ٹریژری سیکرٹری اسٹیون منوچن نے کہا تھا کہ وہ نجی سرمایہ کاروں کے ایک گروپ کو اکٹھا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ٹک ٹاک کو خریدا جا سکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ منوچن ان لوگوں میں سے ایک تھے، جو چار سال قبل بھی ٹک ٹاک کی فروخت کے لیے زور دے رہے تھے۔ تب وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ کے رکن تھے۔

ملٹن مولر کہتے ہیں کہ آخرکار یہ معاملہ اچھے کاروبار یا یہاں تک کہ قومی سلامتی کے بارے میں نہیں ہے، ''یہ کمپنی امریکہ اور چین کے وسیع تر طاقت کے مقابلے میں فقط ایک پیادہ ہے اور علامتی وجوہات کی بنا پر اس کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ کسی کمپنی کو ملکیت کی فروخت پر مجبور کرنے سے ایک خطرناک نظیر بھی قائم ہو گی، جسے دوسری حکومتیں امریکی سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔