بنوں میں احتجاج کرنے والے 11 پولیس اہلکار برطرف

police officials participated in bannu agitation terminated
کیپشن: police officials participated in bannu agitation terminated
سورس: google

ویب ڈیسک :خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں پولیس حکام نے 11 پولیس اہلکاروں کو احتجاج کرنے اور انسداد پولیو مہم سے انکار کرنے پر ملازمت سے برخاست کردیا ہے۔
ضلعی پولیس افسر بنوں ضیاالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس ایک ڈسپلن ادارہ ہے اور اگر پولیس اہلکاروں کے کوئی حقیقی مطالبات ہیں تو وہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے لیکن جہاں تک بات انسداد پولیو مہم یا دیگر باتوں کا تعلق ہے تو اس پر کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا ہے کہ فی الحال 11 اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ ان میں میں ہیڈ کانسٹیبل، لوئر ہیڈ کانسٹیبل ایف سی اور ڈرائیور شامل ہیں۔
بنوں پولیس کے ایک سابق اہلکار جمشید کو دو روز پہلے تین ایم پی او کے تحت حراست میں لے کر ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ بنوں اور لکی مروت پولیس اہلکاروں نے اس پر احتجاج کیا اور بنوں پولیس لائن میں مظاہرے کے بعد بنوں میرانشاہ سڑک بلاک کر دی تھی۔

جمشید خان کے بارے میں پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے وہ بنوں اور لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ پشاور میں دو سال پہلے پولیس لائن مسجد میں دھماکے کے بعد جمشید خان نے احتجاج میں حصہ لیا تھا جس پر انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں جب بنوں کے قریب واقع ضلع لکی مروت میں پولیس اہلکاروں نے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر احتجاج اور دھرنا دیا تھا تو اس وقت جمشید خان نے ان کی حمایت کی تھی اور دھرنے میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بنوں امن پاسون میں بھی جمشید خان شریک تھے۔
ضلعی پولیس افسر ضیاالدین کا کہنا ہے کہ جمشید پولیس اہلکاروں کو انسداد پولیو مہم میں شریک ہونے سے منع کر رہا تھا۔ ان سے جب پوچھا کہ انھیں کیوں حراست میں لیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی طریقہ کار کے تحت حراست میں لیا گیا ہے اور اگر اس پر کسی کو اعتراض ہے تو اس کے لیے قانونی راستے کھلے ہیں اور عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے احتجاج کا راستہ مناسب نہیں ہے اور انسداد پولیو مہم ہر حالت میں جاری رہے گی۔

اس سے پہلے ضلع لکی مروت میں پولیس اہلکاروں نے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پانچ دنوں تک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس کو مکمل اختیارات دیے جائیں اور یہ کہ علاقے سے فوج کو نکالا جائے۔
پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ امن کے قیام کے لیے اگر شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہوگی تو وہ پولیس ہی کرے گی۔ گذشتہ ماہ بنوں میں تشدد کے واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت اور علاقے میں مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا اور اس بنوں امن پاسون کا نام دیا گیا تھا۔
 اس پاسون میں 16 مطالبات پیش کیے گئے تھے جس پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ نے مکمل عمددرآمد کا اعلان کیا تھا۔ بنوں اور لکی مروت سمیت خیبر پختونخوا کے بیشتر جنوبی اضلاع میں تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے اور یہ کہ مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی ویڈیوز بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک اور کلاچی کے علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں تشدد کے متعدد واقعات پیش آیے ہیں۔ ان میں لیفٹیننٹ کرنل اور ان کے بھائیوں کے اغوا، ججز اور ان کی حفاظت پر معمور اہلکاروں پر فائرنگ کے ساتھ اقوام متحدہ سے منسلک ادارے کی گاڑی پر حملے اور متعدد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
 

 

Watch Live Public News