اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما فواد چوہدری ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ دوران سماعت فواد چوہدری نے مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ مجھے 5 منٹ فیملی اور اتنے ہی منٹ اپنے وکلاء سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ پی ٹی آئی رہنما نے جج کے روبرو کہا کہ باہر 1500 پولیس اہلکار موجود ہیں، اس کے باوجود کمرہ عدالت میں مجھے ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔ میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے مقدمے کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔ اس پر فواد چوہدری نے لقمہ دیا کہ الیکشن کمیشن کی حالت تو منشی کی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانے کے تمام اختیارات ہیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ فواد چوہدری کی تقریر کا مقصد سب کو اکسانا تھا، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن والوں کے گھروں تک پہنچیں گے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ فواد چوہدری الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا چاہتے تھے، ملزم کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے۔ میں عدالت میں الزامات پڑھ رہا تھا تو فواد چوہدری انشاء اللّٰہ اور ماشاء اللّٰہ کہہ رہے تھے، ملزم نے تقریر میں جو کچھ بھی کہا وہ مانا ہے۔ وکیل نے مزید کہا کہ کیا فواد چوہدری سے متعلق فیصلہ کرنا درست نہیں، ملزم کی تقریر کے پیچھے موجود لوگوں کا پتا کرنا ہے۔ فواد چوہدری کی تقریر کے پیچھے مہم چل رہی ہے، پولیس کو ملزم کے بیان پر ابھی تفتیش کرنی ہے۔ فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیا کہ مقدمے میں مجھ پر بغاوت کی دفعہ بھی لگادی گئی ہے، مجھے بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا کی صف میں شامل کردیا گیا ہے۔ آزادی کےلیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں، میں تقریر کر ہی نہیں رہاتھا، میں میڈیا ٹاک کر رہا تھا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے، مدعی وکیل کا مطلب ہےکہ تنقید کرنا بغاوت ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، اگر الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کر سکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو۔ فواد چوہدری نے کہا کہ افسوس ہے ملکی سیاست میں مخالفین پر کیس بنائے جا رہےہیں، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ کیس برخاست کیا جائے۔ بعد ازاں ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔