سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کا ہوتا ہے۔ خلاف ورزی پر معاملہ پارٹی سربراہ کے پاس جائے گا۔ تفصیل کے مطابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم آئے تو چیف جسٹس نے ان کیساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کافی صدور یہاں موجود ہیں۔ لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظر ثانی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب ہمارے لئے قابل عزت ہیں۔ یہ کیس براہ راست ہمارے فیصلے سے منسلک ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ میں عدالت سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں آپ نے کہا کہنا ہے۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ اس وقت درجہ حرارت بڑا ہائی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف بھی کیس زیر التوا ہیں۔ آئینی بحران سے گریز کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم دائو پر لگا ہوا ہے۔ سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو سٹیک ہولڈر ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔ ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی، اسے بھی سنا جائے۔ وہ سوال ہمارے سامنے نہیں آیا جس کے لئے عدالت درخواست سن رہی ہے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ 63اے کے حوالے سے جج صاحبان اپنے فیصلے کا کا پیرہ ون اور ٹو پڑھ لیں۔ ان کو پڑھنے سے سب باتیں کلیئر ہو جائیں گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ تاہم عرفان قادر اپنی بات پر قائم رہے اور کہا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے عرفان قادر کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کی بات پہلے سن لیں۔ اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عرفان قادر کا اس پر مودبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ چیف جسٹس ہیں۔ آپ تو ہمیں ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا ذکر بھی ہے، اس کو بھی دیکھ لیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ میں تو آپ کو محترم کہہ کر پکار رہا ہوں۔ اس پر عرفان قادر نے جواب دیا کہ عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپ کی معاونت کیلئے آئے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں۔ آپ ناراض ہو گئے ہیں، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بعد ازاں حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا، اس کا بتائیں۔ حمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔ آپ کے سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟ اس پر منصور اعوان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18 ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا۔ اس کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا۔ ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔ وکیل حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ وکیل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ پارٹی ہیڈ پارٹی کے تمام فیصلوں میں خود مختار ہوتا ہے۔ جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ بھی پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ ہمارا سوال اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق سے متعلق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کا ڈیفیکشن کی صورت میں اختیار اہم ہے۔ پارٹی سربراہ کا نااہلی ریفرنس بھیجنے میں مکمل اختیار ہے۔ آئین اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی جانب سے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی پر ہی پارٹی سربراہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ پارٹی سربراہ کا اپنا کلیدی کردار ہے، وہ منحرف ممبران کے خلاف ڈیکلریشن دے سکتے ہیں۔ لیکن ووٹنگ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کا ہوتا ہے۔ خلاف ورزی پر معاملہ پارٹی سربراہ کے پاس جائے گا۔