بھارت کے معروف یوٹیوبر دھرُوَ راٹھی بڑی مشکل میں ، عدالت سے اہم خبر آگئی

بھارت کے معروف یوٹیوبر دھرُوَ راٹھی بڑی مشکل میں ، عدالت سے اہم خبر آگئی

ویب ڈیسک :( علی رضا ) دہلی کی ایک عدالت نے حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ ( بی جے پی) کے ایک رہنما کی جانب سے مبینہ ہتک عزت کا معاملہ دائر کیے جانے پر معروف یوٹیوبر دھرُوَ راٹھی کو سمن جاری کیا ہے۔

بی جے پی کی ممبئی شاخ کے ترجمان سریش کرامشی نکُھوا نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرو راٹھی نے سات جولائی کو اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں انھوں نے ان کو ’تشدد پسند اور بدزبان ٹرول‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے 20 لاکھ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب اس معاملے پر چھ اگست کو سماعت ہو گی۔

عدالتی سمن پر دھرو راٹھی کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

کیا دھرو راٹھی کی ویڈیوز نے انتخابی نتائج کو متاثر کیا؟

دھرو راٹھی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران حکومت کی پالیسیوں کے خلاف متعدد ویڈیوز بنائی تھیں جن کو کروڑوں افراد نے دیکھا۔ ان ویڈیوز سے ایک طرح سے حکومت کی سبکی ہوئی تھی۔

 حالاں کہ دھرو راٹھی نے کوئی نئے ایشوز نہیں اٹھائے تھے بلکہ وہ ایشوز عوام کے درمیان تھے۔ 

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دھرو راٹھی کی ویڈیوز نے عام انتخابات کو متاثر کیا تھا۔ 

 ویڈیوز لوگوں نے بڑی تعداد میں دیکھیں اور یقیناً ان کا اثر رہا ہو گا۔

بھارتی حکومت سوشل میڈیا پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ اس لیے اس نے 2021 میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز‘ بنائے جس کی مدد سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ہدایت پر بہت سی سوشل میڈیا پوسٹس کو ہٹا دیا جاتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق بعض ریاستی حکومتوں نے متعدد یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی کی ہے۔ مثال کے طور پر اترپردیش کی حکومت نے ایک یوٹیوبر کو اس لیے گرفتار کر لیا کہ اس نے اپنی ویڈیو میں ریاست میں صحت عامہ کی خراب صورت حال کو اجاگر کیا تھا۔

ایک ہفتہ قبل مہاراشٹر سائبر پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دھرو راٹھی کے نام سے ایک پیروڈی چینل سے کی جانے والی ایک پوسٹ پر ان کے خلاف کیس درج کیا تھا۔ یہ کیس لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی بیٹی کے بارے میں مبینہ فیک نیوز پر درج کیا گیا۔

نئی دہلی کے بعض حلقوں میں اس کارروائی کو حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی میڈیا ہو اور کسی بھی ادارے سے وابستہ صحافی ہو اسے ملکی قوانین کی پابندی کرنا پڑے گی اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

جن میڈیا اداروں کے خلاف پولیس نے کارروائی کی ہے ان کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف اس کے پاس کافی شواہد ہیں۔ جب کہ میڈیا ادارے اس دعوے کی تردید اور الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چوں کہ نیشنل میڈیا حکومت کا حامی ہو گیا ہے اور وہ قومی مسائل پر حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھتا اسی لیے سوشل میڈیا کو کافی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور دھرو راٹھی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

ان کے مطابق چوں کہ یوٹیوبرز اظہارِ خیال کی آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیوز بناتے ہیں اس لیے ان کو لاکھوں اور کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔

 یادرہے بھارت کا قومی میڈیا ملکی مسائل کو نہیں اٹھاتا وہ مکمل طور پر حکومت کا حامی ہو گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب انہی ایشوز پر سوشل میڈیا پر بات ہوتی ہے تو اسے لوگ دیکھتے ہیں۔

ان کے بقول دھرو راٹھی جو ایشوز اٹھاتے ہیں وہ وہی ہیں جن کو قومی میڈیا اٹھانے سے بچتا ہے اور چوں کہ ان کی ویڈیوز ریسرچ کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں اس لیے ان کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق انھیں بی جے پی حکومت اور بالخصوص وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف ویڈیو بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کی ایسی ویڈیوز کو لاکھوں بلکہ بعض ویڈیوز کو کروڑوں ویوز اور لائکس ملتے ہیں۔

انھوں نے فروری میں ایک ویڈیو ریلیز کی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارت ’یک جماعتی آمریت‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی ویڈیو میں وزیرِ اعظم مودی کو ڈکٹیٹر قرار دیا تھا۔ اس ویڈیو کو 23 ملین افراد نے دیکھا تھا۔ 

دھرو راٹھی کون ہیں؟

دھرو راٹھی دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے روہتک ضلع کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنی ریاست سے اور اعلیٰ تعلیم جرمنی سے حاصل کی۔ انھوں نے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری لی ہے۔ انھوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی ہے اور وہیں رہائش پذیر ہیں۔

انھوں نے 2013 میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کیا اور اس پر ویڈیوز اپلوڈ کرنے لگے۔ ابتدا میں انھوں نے سماجی و تعلیمی ایشوز پر ویڈیوز بنائے لیکن پھر سیاسی موضوعات پر بنانے لگے۔

ان کے 28 ملین سے زائد سبسکرائبر ہیں۔ نئی دہلی کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے مطابق وہ پہلے انڈین ہیں جنھوں نے یوٹیوب کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ 2013 میں وہ ٹریول ویڈیوز کرتے تھے لیکن سال کے اختتام تک وہ سیاسی و سماجی ویڈیوز بنانے لگے۔

انھوں نے رواں سال کے اپریل میں پانچ نئے یوٹیوب چینل شروع کرنے کا اعلان کیا جن پر پانچ بھاتی زبانوں تمل، تیلگو، بنگالی، مراٹھی اور کنڑ میں ڈب کی ہوئی ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں۔

Watch Live Public News

کونٹینٹ پروڈیوسر