ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس: 10 ماہ ہوگئے ہیں جوملزمان بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں, سپریم کورٹ

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس: 10 ماہ ہوگئے ہیں جوملزمان بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں, سپریم کورٹ

(ویب ڈیسک)  سپریم کورٹ میں خیبرپختونخوا حکومت نے سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کردی، درخواست گزاروں نے بینچ کے ساتھ ساتھ حکومت کے نجی وکلاء پر اعتراض کیا تو عدالت نے ملزمان کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ 10 ماہ ہوگئے ہیں جوملزمان بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

6 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔

بینچ کے سائز پر اعتراض

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے سائز پر اعتراض عائد کردیا۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 6 رکنی لارجر بینچ پر اعتراض ہے، 103 افراد جو فوجی عدالتوں میں قید ہیں ان کے خاندان کے افراد آئے ہیں، سپریم کورٹ میں ملزمان کے فیملی ممبران کو اندر نہیں آنے دیا گیا، درخواست ہے کہ ملزمان کے فیملی ممبران کو کمرہ عدالت آنے کی اجازت دی جائے۔

جس پر جسٹس امین الدین خان ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، اتنے زیادہ لوگوں کو کمرہ عدالت میں کیسے بٹھائیں گے، ملزمان کے فیملی ممبران اس کیس میں فریق بھی نہیں، ہمیں کسی کے آنے پراعتراض نہیں جگہ کے مطابق کسی اور دن بلا لیں گے۔

درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ ہر خاندان سے ایک ایک فرد کو اندر آنے کی اجازت دے دی جائے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج ممکن نہیں کسی اور دن تمام افراد کو کمرہ عدالت بلا لیں گے۔

9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا

بعد ازاں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی متفرق درخواست میں بھی 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، عدالت سے استدعا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کمیٹی سے گزارش کرے کہ 9 رکنی بینچ بنایا جائے۔

خیبرپختونخوا حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا

خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کردی اور اس حوالے سے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کر دی۔

خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، کابینہ فیصلے کے مطابق کے پی حکومت درخواست واپس لینا چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کابینہ کی قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ اپیل واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔

درخوست گزاروں کا بینچ کے ساتھ نجی وکلاء پر بھی اعتراض

فوجی عدالتوں کے خلاف درخوست گزاروں نے بینچ کے ساتھ نجی وکلاء پر بھی اعتراض کر دیا۔

اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے 5 اپیلیں دائر کررکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائرکی ہیں توعوام کا پیسہ نجی وکلاء پرکیوں خرچ ہو؟۔

جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہوگا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، پہلے بھی 9 رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے 9 رکنی بینچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نہ ہوتی۔

”عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے فیصلہ متنازع نہ ہو“

خواجہ احمد حسین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا، 6 رکنی بینچ اگر اسے 2-4 سے کالعدم قرار دے تو متنازع ہوجائے گا، عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازع ہو، ایسا تاثر نہ جائے کہ بینچ کی تشکیل سے ہی فیصلہ واضح ہو۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان میں سے کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہوسکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرائل مکمل ہوچکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں کچھ سزائیں مکمل ہوچکیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ ایسے ملزمان ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصورہوگا، سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بریت پر کوئی حکم امتناع نہیں تھا، جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، اصل مقصد یہ ہے جو رہا ہوسکتے ہیں وہ تو ہوجائیں۔

عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا

وکیل فیصل صدیقی نے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کر دی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ لائیو نشریات کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو آرمی ایکٹ کی دو دفعات بھی کالعدم قرار دی تھیں، صوبائی حکومتیں کیسے اپیل دائر کر سکتی ہیں؟ یہ تو وفاقی حکومت کا کیس بنتا ہے، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ صوبائی حکومتیں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھا رہی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ نے گزشتہ سماعت پر بتایا تھا کہ کچھ ملزمان کی سزائیں کم ہوں گی، آج تو آپ کے پاس مکمل تفصیلات ہونی چاہیئے تھیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزائیں کتنی ہوں گی یہ شواہد ریکارڈ کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسے کیسز کے ٹرائل میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ سزائیں کیا ہوں گی؟ جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بہت کیسز کیے ہیں، یہاں معاملات آرمی چیف کی توثیق تک لٹک جاتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف کی توثیق صرف سزائے موت کے مقدمات میں درکار ہوتی ہے۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے رہا ہونے والے اور سزا پانے والے ملزمان کی فہرست طلب کرلی۔

عدالت نے مقدمے میں فریق بننے اور دائر مختلف درخواستوں پر بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 28 مارچ تک ملتوی کر دی۔