ویب ڈیسک: لیڈی کانسٹیبل صومن کے قتل کا معاملہ، پولیس نے واقعے کے مرکزی ملزم فاروق کو حراست میں لے لیا۔
تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم فاروق نےساتھیوں کے ہمراہ فائرنگ کر کے کانسٹیبل صومن کو قتل کیا تھا، پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی ہے۔ ملزم اور مقتولہ دونوں پولیس لائینز میں تعینات تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز دونوں کی لاءاینڈ آرڈر کی ڈیوٹی مناواں تھانے میں لگائی گئی تھی،مقتولہ کے بھائی کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج تھا، مقدمہ میں ملزم فاروق ساتھی طاہر اور حمزہ نامزد ہے جبکہ خاتون کی اسکے آبائی علاقے میں تدفین کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب صومن کے بھائی محمد افضال کا کہنا تھا کہ کانسٹیبل صومن پُرتشدد مظاہروں سے نمٹنے والے پولیس یونٹ کا حصّہ تھیں۔منگل کو لاہور کے علاقے ہربنس پورہ میں خاتون پولیس کانسٹیبل کو مبینہ طور پر محمد فاروق نامی پولیس کانسٹیبل نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا جب دونوں ہربنس پورہ تھانے کی حدود میں کنال روڈ کے گرین بیلٹ پر بیٹھے تھے۔
بی اے کرنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہوئی تھیں اور گذشتہ پانچ برس سے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
’افضال کا کہنا ہے کہ وہ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں جن میں سے دو بھائی چھوٹے ہی اور زیرِتعلیم ہیں جبکہ بڑا بھائی بیرون ملک ہوتا ہے۔ میرا ایک بازو نہیں ہے اس لیے پورے گھر کے اخراجات صومن دیکھتی تھی۔‘
متعلقہ پولیس حکام کے مطابق ملزم اور مقتولہ کے کئی برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں تھے اور ملتے رہتے تھے۔
ہربنس پورہ کے ڈیوٹی آفیسر نے کہا کہ ’ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ صومن اور ملزم محمد فاروق ایک دوسرے کو کئی برسوں سے جانتے تھے۔ فاروق صومن سے شادی کرنا چاہتا تھا تاہم اسے مبینہ طور پر معلوم ہوا کہ وہ کسی اور سے بھی رابطے میں ہے جس کے بعد دونوں میں تلخی پیدا ہوگئی۔‘
ڈیوٹی آفیسر نے بتایا کہ ملزم نے مقتولہ کو دوسرے شخص سے رابطہ کرنے سے روکا اور اسے شادی کی پیشکش کی تاہم وہ راضی نہ ہوئی۔
پولیس کے مطابق دونوں گرین بیلٹ پر بیٹھے بحث کر رہے تھے کہ لڑکے نے پستول نکال کر لیڈی کانسٹیبل پر تین سے چار فائر کر دیے۔ کیمروں کی مدد سے ملزم کی شناخت ہو گئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
ایس ایچ او ہربنس پورہ عاصم حمید نے بتایا کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہی معلوم ہوا ہے کہ ملزم مقتولہ کو پسند کرتا تھا جب اس نے شادی سے انکار کر دیا تو اسے گولی مار دی۔‘
پولیس نے مقتولہ کانسٹیبل کے بھائی محمد افضال کی مدعیت میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ مقدمے میں مدعی نے بتایا کہ ملزم نے خود انہیں فون کر کے اطلاع دی کہ اس نے ہماری بہن کو قتل کر دیا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ’میری بہن دو بجے ڈیوٹی کے لیے گئی تھی۔ چار بجے کے قریب ملزم فاروق نے فون کر کے کہا کہ تمہاری بہن کو میں نے گرین بیلٹ پر فائر کر کے قتل کر دیا ہے آ کر اس کی لاش اٹھا لو۔‘
محمد افضال نے مزید بتایا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو ان کی بہن خون میں لت پت پڑی تھی۔ مقدمے میں پولیس کانسٹیبل محمد فاروق کے ساتھ دو دیگر ملزمان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔حمد افضال کا کہنا تھا کہ وہ ہر روز اپنی بہن کو رکشے میں بٹھا کر ڈیوٹی کے لیے رخصت کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مقتولہ نے کبھی محمد فاروق سے متعلق انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔
’آج تک میری بہن یا فاروق نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ کل جب فاروق نے مجھے فون کر کے واقعے کا بتایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گولی کیوں ماری؟ تو اس نے کہا کہ میں آپ کی گلی بھی آیا تھا لیکن بات نہ ہوسکی۔ میں نے کہا کہ اگر آپ خود آکر ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور ہم سے بات کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘
مقتولہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ’ ملزم نے میری بہن سے زبردستی شادی کی کوشش کی اور جب وہ راضی نہیں ہوئی تو اس نے گولی مار دی۔‘