ویب ڈیسک : کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گھروں، دفتروں اور عام زندگی میں استعمال ہونے والا وائی فائی کب اور کیسے وجود میں آیا؟ جس وائر لیس نیٹ ورک کے بغیر ای میل بھیجنے سے لے کر نیٹ فلکس دیکھنے تک کوئی کام نہیں ہوسکتا اس کی موجد ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ ہیڈی لمار تھیں۔
نو نومبر 1914 کو آسٹریا کے شہر ویانا میں پیدا ہونے والی اداکارہ کو ایک وقت میں دنیا کی خوب صورت ترین عورت کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے 1930 سے لے کر 1958 کے درمیان بے شمار فلموں میں کام کیا جس میں 1949 میں ریلیز ہونے والی 'سیمسن اینڈ ڈیلائیلا' ان کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔
ایک کامیاب اداکارہ کے ساتھ ساتھ وہ ایک قابل موجد بھی تھیں جنہوں نے ٹریفک سگنل میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ٹیبلٹ ایجاد کی تھی جسے اگر پانی میں ڈال دیا جائے تو وہ کاربونیٹڈ ڈرنک بن جاتی ہے۔
The Woman Who Invented WI-FI.
— Mr Commonsense (@fopminui) January 22, 2024
The most beautiful woman in the world in cinema and thanks to her we have Wi-Fi. Her name was Hedi, Hedi Lamarr.
She was a Viennese Jewish woman with a passion for technology and a vocation for theater and film. In Hollywood, and first in Germany,… pic.twitter.com/5SmrXjNzdf
تاہم جس ایجاد کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے اسے 'فری کوئنسی ہوپنگ اسپریڈ سسٹم' کا نام دیا گیا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے ریڈیو سگنلز صرف ایک فری کوئنسی تک محدود نہیں رہتے جس کی وجہ سے انہیں جیم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
ہیڈی لمار نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ساتھی موجد جارج اینتھائل کے ساتھ مل کر اتحادی فوج کے لیے ایک ایسا ریڈیو گائیڈنس سسٹم تخلیق کیا تھا جس نے آگے جاکر اس مواصلاتی ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کی جس میں جی پی ایس، بلیوٹوتھ اور وائی فائی نیٹ ورک شامل ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران تو ان کا یہ گائیڈنس سسٹم استعمال نہیں ہوسکا البتہ 1962 میں کیوبن میزائل بحران کے دوران اس کے اپڈیٹڈ ورژن کو کام میں لایا گیا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف سب میرین سے مارے گئے ٹورپیڈوز کو ٹرانسمیٹر کے ذریعے کنٹرول کرنے کا موقع ملا بلکہ دشمن کے جیمرز کو بھی ایک حد تک ناکارہ کرنے میں مدد ملی۔
سن 1942 میں متعارف ہونے والے اس 'سیکریٹ کمیونی کیشن سسٹم' کی وجہ سے ہیڈی لمار اور جارج اینتھائل کو سن 2014 میں نیشنل انوینٹرز کے لیے مختص 'ہال آف فیم' میں جگہ دی گئی۔
اس طرح ہیڈی لمار دنیا کی وہ واحد اداکارہ بنی جو ہالی وڈ 'والک آف فیم' کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کے 'ہال آف فیم' میں بھی موجود ہیں۔ 19 جنوری 2000 کو وفات پانے والی اداکارہ کی ایجاد آج بھی دنیا بھر میں اربوں افراد کے کام آ رہی ہے۔
سن 1914 میں ویانا میں پیدا ہونے والی ہیڈویگ ایوا ماریہ کیسلر کو بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا۔ 12 سال کی عمر میں ایک مقامی مقابلہ حسن جیتنے کے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا اور 1930 میں بننے والی آسٹرین جرمن فلم 'منی آن دی اسٹریٹ' سے اپنا کریئر شروع کیا۔
انہوں نے 1933 میں ایک متنازع فلم 'ایسٹیسی' سے شہرت تو حاصل کی لیکن بعد میں انہوں نے ہدایت کار پر الزام لگایا کہ انہوں نے ٹیلی فوٹو لینس لگا کر ان کا سیکس سین شوٹ کر کے انہیں دھوکہ دیا۔
اس فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے آسٹریا کے تیسرے امیر ترین شخص فریڈریک مینڈل سے شادی کر لی جنہوں نے ان پر فلموں میں اداکاری پر پابندی لگا کر انہیں شوبز سے دور کر دیا۔
فلموں سے یہی دوری انہیں اپنے شوہر کے بزنس سے قریب لے آئی جو ملٹری کو اسلحہ فراہم کرتے تھے۔ لمار میں اپلائیڈ سائنس کا شوق یہاں سے پیدا ہوا جو آگے جاکر انہیں موجد بنانے میں اہم ثابت ہوا۔
سن 1937 میں وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر پہلے لندن اور پھر امریکہ گئیں جہاں انہوں نے 'ایم جی ایم اسٹوڈیو' کے مالک کے کہنے پر اپنا نام تبدیل کرکے ہیڈی لمار رکھا تاکہ ان پر لگی فلم 'ایسٹیسی' کی ہیروئن کی چھاپ مٹ سکے۔
سن 1938 میں 'الجیئر' سے انہوں نے بطور اداکارہ اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا جو 15 سال تک جاری رہا۔ 1949 کی 'سیمسن اینڈ ڈیلائلا' میں ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ پُرکشش شخصیت کو بھی سب نے پسند کیا۔
اپنے کرئیر کے دوران ہیڈی لمار نے اسپینسر ٹریسی، کلارک گیبل، جیمز اسٹورٹ اور ولیم پاول جیسے نامور اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی خوب صورتی کے چرچے بھی ہوئے اور انہیں کئی میگزین کے سرورق پر بھی جگہ ملی۔
تاہم آج ان کی فلموں سے زیادہ ان کی سائنسی خدمات کی وجہ سے انہیں یاد کیا جاتا ہے جس میں ایک ایسا سسٹم تخلیق کرنا شامل ہے جس کے بغیر انٹرنیٹ، بلیو ٹوتھ اور وائی فائی کا قیام بھی مشکل ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران جس طرح متعدد مرد اداکاروں نے فوج میں شمولیت اختیار کرکے ملک کی خدمت کی ویسے ہی ہیڈی لمار نے ایجادات کرکے اپنا حصہ ڈالا۔
اس سے پہلے بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ ایک کامیاب اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیلف ٹاٹ یعنی خود سے سیکھنے والی کمیونی کیشن انجنیئر بھی ہیں۔
نو نومبر کو ان کی سالگرہ کے دن کو ان کے آبائی ملک آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں بطور انوینٹرز ڈے یعنی موجدوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ہیڈی لمار نے زندگی میں چھ شادیاں کیں لیکن سب ہی ناکام ہوئیں۔ بطور اداکارہ بھی انہوں نے کوئی بڑا ایوارڈ نہیں جیتا البتہ انہیں امریکی الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن نے 1997 میں پائی نیئر ایوارڈ سے نوازا تھا جب کہ آسٹریا میں انہیں وکٹر کیپلن میڈل دیا گیا جو پیٹنٹ ہولڈرز اور موجدوں کو دیا جاتا ہے۔
ایجاد کی سند کو رینیو نہ کرنے اور کلیم فائل نہ کرنے کی وجہ سے ہیڈی لمار اپنی ہی ایجاد سے کوئی مالی فائدہ نہ حاصل کرسکیں اور آخری ایام کسمپرسی میں گزارے۔
پچاس کی دہائی کے آخر میں فلموں کو خیرباد کہنے والی اداکارہ کو متعدد مرتبہ شاپس سے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔
سن 2019 میں ایک ایسٹروائیڈ 32730 لمار کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔
یہی نہیں سن 2013 میں انسٹی ٹیوٹ آف کوانٹم آپٹکس اینڈ کوانٹم انفارمیشن نے یونی ورسٹی آف ویانا میں ایک کوانٹم ٹیلی اسکوپ نصب کیا جسے ہیڈی لمار کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ مشہور کامک بک کردار کیٹ وومن بھی اداکارہ سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا جب کہ ڈزنی کی اینی میٹڈ فلم اسنو وائٹ کے مرکزی کردار میں بھی انہی کی مشابہت نظر آتی ہے