اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط کا جواب دے دیا۔ وزیراعظم شہبازشریفنے صدر عارف علوی کو پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل جوابی خط لکھا۔ صدر عارف علوی نے وزیراعظم شہبازشریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا۔ وزیر اعظم نے خط میں کہا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، آپ کا خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کررہے ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ 3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا، قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا، آرٹیکل 91 کلاز5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔ وزیر اعظم نے صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں کہا کہ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی، اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے ، آئین کے آرٹیکل 10 ے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیاگیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لئے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے، تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے ، جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنےو الے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا ، آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کردیا۔ وزیر اعظم نے خط میں لکھا کہ پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کردیا، پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی ، آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی ، عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ خط میں کہا گیا کہ ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے ، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے، جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی ، آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ2022 کی طرف دلاتا ہوں، پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی ، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے ، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے ۔ وزیر اعظم نے جوابی خط میں کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمشنی معطل رہا، قومی کمشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے، رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایاگیا جس کی سزا موت ہے، پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا، ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رُکن کو بھی معاف نہ کیاگیا۔ صدر مملکت کو لکھے جانے والے خط میں وزیر اعظم نے کہا کہ سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لئے نیب کو استعمال کیاگیا ، افسوس بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی اِن میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی ، آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے ، آپ کے خط کا جواب اسی لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کردوں۔ خط کے متن کے مطابق پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے عام، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دے دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا، آپ نے دو صوبوں میں بدنیتی پرمبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی انا اورتکبر کی تسکین کے لئے کیا ، صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی وقانونی مقصد کے لئے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے تحلیل کی گئیں، آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دوصوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائے گا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ آپ نے آرٹیکل 218 کلاز تین کے تحت شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کردیا ، آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طورپر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوسناک ہے ، آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں، الیکشن کمشنا نے 8 اکتوبر2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے، تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمشنپ کو مہیا کی ہیں ، الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمشنم کو سونپی ہے ، الیکشن کمشنش نے طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخاب کرانے کے لئے آرٹیکل 218 تین کے تحت سازگار ماحول موجود ہے۔صدر نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزراءکے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر اعتراض نہیں کیا ، سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمشنء کے اختیار اور ساکھ پر حملے کررہے ہیں۔ جوابی خط میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں، صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں، آئین کے آرٹیکل 48 کلاز وَن کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے، صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم ، وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں ، جناب صدر، میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ،آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں ، آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر کاربند ہیں ، حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے ، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طورپر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔