نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور

نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور
اسلام آباد: قومی اسمبلی اجلاس میں قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق نیب ترمیمی بل 2021 کی دوسری ترمیم منظور کرلی گئی ۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا، چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے،ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔ بل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں ، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے،کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بےقائدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کاروائی نہیں کر سکے گا، احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔ بل کے مطابق نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا،نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا،وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائےگا،پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔ بل میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا،ڈپٹی چیئرمین کی تقرر کا اختیار صدر سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا جائے گا، احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کریں گی،نیب انکوائری کے لیے نئے قانون کے تحت مدت کا تعین کر دیا گیا،نیب اب 6 ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا،نیب گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ عدالت میں پیش کرنے پابند ہوگا۔ کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکتی، نیب گرفتاری سے پہلے کافی ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا، نیب قانون میں ترمیم کرکے ریمانڈ 90 دن سے کم کرکے 14 دن کر رہے ہیں، نیب ملزم کے لیے اپیل کا حق 10 روز سے پڑھا کر 30 روز کر دیا گیا ہے، ملزم کے خلاف ریفرنس دائر ہونے تک کوئی نیب افسر میڈیا میں بیان نہیں دے گا، ریفرنس دائر ہونے سے قبل بیان دینے پر متعلقہ نیب افسر کو ایک سال تک قید اور 10 لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا، کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو 5 سال تک قید کی سزا ہو گی۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔