9مئی کےاصل منصوبہ سازوں کو قانون کےمطابق کیفرکردارتک پہنچائیں گے،ڈ ی جی آئی ایس پی آر

9مئی کےاصل منصوبہ سازوں کو قانون کےمطابق کیفرکردارتک پہنچائیں گے،ڈ ی جی آئی ایس پی آر
کیپشن: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری آج اہم پریس کانفرنس کرینگے

ویب ڈیسک: پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ فیک نیوز کے غیرقانونی اسپیکٹرم کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔9مئی کےاصل منصوبہ سازوں کو قانون کےمطابق کیفرکردارتک پہنچائیں گے۔9 مئی پاک فوج کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے۔فیض حمید حساس معاملہ ہے تبصروں سے گریز کیا جائے۔

انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے اور لڑ رہی ہے ، اس میں بیش بہا قربانیاں دیں، رواں سال سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کیخلاف 59 ہزار 775 کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیئے، اس دوران 925 دہشتگردوں بشمول خوارج کو واصل جہنم کیا گیا جبکہ سینکڑوں گرفتار کیئے گئے۔

دہشت گردوں کے سرغنوں کی گرفتاری

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں مارے جانے والے یہ دہشتگردوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے 169 سے زیادہ آپریشنز افواج پاکستان ،انٹیلی جنس پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔بر وقت اقدامات کی وجہ سے دہشتگردی کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا گیا، دشمن کے نیٹ ورکس پکڑنے میں اہم کامیابیاں ملیں، بھاری تعداد میں اسلحہ و بارود برآمد کیا گیا ، ان آپریشن کے دوران 73 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے دہشتگردوں میں فتنہ الخوارج کا سرغنہ میاں سید عرف قریشی استاد، مردان کا محسن قادر، عطاء اللہ عرف مہران جو کہ سوات میں سفارتکاروں میں حملے میں ملوث تھا، علی رحمان اور ابو بحییٰ شامل ہیں, اس کے علاوہ بلوچ دہشتگردوں کے انتہائی مطلوب سرغنہ ثناء عرف بڑو، بشیر عرف پیر جان، نیاز عرف گمان، ظریف شاہ جہاں، حضرت علی ، لاک جان جہن واصل ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی میں ملوث 27 افغان دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو رواں سال ایک اور بہت بڑی کامیابی اس وقت ملی جب دو خود کش بمباروں کو گرفتار کیا گیا، جن میں افغانستان سے تعلق رکھنے والا انصاف اللہ اور روح اللہ شامل تھے، ان کے قبضے سے 10 خود کش جیکٹس اور 250 کلو گرام سے زائد اسلحہ وبارود برآمد کیا گیا.

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے گرفتار ہونے والی خاتون خود کش بمبار عدیلہ ولد خدا بخش، ماہل ولد عبدالحمید نے انکشافات کیئے کہ کس طرح دہشتگرد معصوم لوگوں کی زہن سازی کر کے مسلحہ بغاوت کیلئے نوجوان بچوں اور بچیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔14 مطلوب دہشتگردوں نے ہتھیار ڈال کر خود کو قومی دھارے میں شامل کیا۔

شہدا کی قربانی

  ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سال 2024 میں انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کے دوران 383 افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، قوم ان بہادر سپتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشتگردوں کیخلاف جنگ آخری دہشتگرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

افغانستان میں قیام امن

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے پوری کوشش کی، افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہاہے ، پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی ایک طویل عرصہ سے کر رہاہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے ،پاکستان کی تمام کوششوں اور 12 ریاستی سطح پر افغان عبوری حکومت کو نشاندہی کرنے کے ، افغان سرزمین سے فتنہ الخوارج پاکستان میں دہشتگرد کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں، دہشتگردی کے واقعات کے تانے بانے اور شواہد اٖفغانستان میں موجود دہشتگردوں کی پناہ گاہوں تک جاتے ہیں۔

افغانستان سے ہونے والےدہشتگروی پر آرمی چیف کادوٹوک موقف

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف واضح اور دوٹوک موقف رکھتے ہیں کہ پاکستان کو  کالعدم تنظیموں کیلئے دستیاب پناہ گاہوں ، سہولت کاری اور افغان سرزمین سے آزادانہ کارروائیوں پر تحفظات ہیں،پاکستان دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ویسٹ بارڈر مینجمنٹ رجیم کے تحت جو کام جاری ہیں وہ مکمل ہونے والے ہیں، قبائلی اضلاع میں 72 فیصد علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاک کر دیا گیا ہے، حکومت کی خصوصی ہدایات پر سمگلنگ ، بجلی چوری  اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے جس میں افواج پاکستان اپنا کر دار ادا کر رہی ہے، اس ضمن میں ملک بھر سے ایک بھر پور حکمت عملی کے تحت مختلف کارروائیاں کی گئیں جن سے ان غیر قانونی سرگرمیوں میں واضح کمی ہوئی ہے ۔جس سے غیر قانونی بارڈر کراسنگ میں کمی ہوئی، پاسپورٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور سمگلنگ میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔

افغان غیر قانونی باشندوں کا انخلاء

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی افغان باشندوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے ،ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 15 ہزار واپس جا چکے ہیں۔

بھارت کی جانب سے خطرات

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اگر ہم لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات کریں تو بھارت کی جانب سے مشرقی سرحد پر خطرات کا بخوبی اداراک ہے، بھارت ہمیشہ کی طرح اندرونی انتشار سے توجہ ہٹانے اور خطے میں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے جو اقدامات کر رہاہے۔پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ رواں سال میں اب تک متعدد مرتبہ بھارت کی جانب سے مختلف سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی، 25 سیز فائر وائلیشن ، 564 سپکولیٹو فائر، 61 ایئر سپیس وائلیشن، 181 ٹیکٹیکل وائلیشن کے واقعات شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رواں سال متعدد فالز فلیگ آپریشن بھی کیئے گئے جن کا مقصد اندرونی سیاست اور انتشار سے توجہ ہٹانا تھا، حیران کن طور پر تمام آپریشن کی اطلاع را سے جڑے جعلی سوشل میڈیا پراپیگنڈے کے ذریعے دی جاتی رہی، پاکستان کی فوج لائن آف کنٹرول پر کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے ، یہ بات طے ہے کہ ہم ہر قیمت پر اپنی سالمیت، خودمختاری کے دفاع کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال

جنرل احمد شریف نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز نہتے کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور معصوم عوام کے ساتھ ہر فورم پر کھڑے ہیں۔یہ سب دنیا کے سامنے ہے ، بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں عوام اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت اپنے حق خود ارادیت کیلئے عالمی توجہ کے منتظر ہیں۔
  ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیل 370 کو برقرار کھ کر ثابت کیا کہ بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی  کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہاہے ، بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ہمارا اصولی موقف ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی سیاسی ،قانونی ،سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت ریاستی دہشتگردی کا کھلم کھلا ارتکاب کر رہی ہے ، جس میں بیرون ممالک ماورائے عدالت قتال اور بھارتی نژاد سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مختلف بھارتی ریاستوں میں جاری حقوق اور علیحدگی پسند تحریکوں کو قوت کے ساتھ کچلنے کا عمل بھی جاری ہے، اقلیت ، بالخصوص مسلمانوں اور بشمول عسائیوں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت نسل کشی کی جارہی ہے، مساجد ، گرجا گھروں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے اہم سوال ہے۔یاد رکھیں، محفوظ پاکستان ہی مضبوط پاکستان ہے۔

سوالات اور جوابات

ڈی جی آئی ایس پی آر سے پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ   گزشتہ روز عمران خان سے بات ہوئی تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی غلط ہے،افغانستان کیساتھ مذاکرات کرنے چاہیے، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  میں اس پر رائے دینے سے پہلے حقائق بتاؤں گا کہ پچھلے 2 سال سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مختلف لیول پر بات چیت اور کانٹیکٹ جاری ہے، پہلے بھی عرض کیا کہ ہم ان سے ایک ہی بات کر رہے ہیں، پاکستان اور افغانستان دونوں پڑوسی اسلامی برادر ملک ہیں، افغان عبوری حکومت دہشتگرووں کو پاکستان پر مقدم نہ رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نہ صرف بات چیت براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بھی ہو رہی ہے، افغان حکومت کو باور کروایا جارہاہے کہ آپ دہشتگردوں کی سہولت کاری جو آپ کی سرزمین سے ہو رہی ہے اسے روکیں، ان افغانوں کو کنٹرول کریں کہ دہشتگردوں کے ساتھ شامل ہو کر پاکستان کے اندر دہشتگردی نہ کریں، اس مسلسل رابطے کے باوجود اگر افغانستان کی سرزمین پر فتنہ الخوارج کے لیڈران کے تربیتی مراکز آزادی سے آپریٹ ہو تے رہے، ہمارے معصوم شہری اور سیکیورٹی اہلکاروں کے اہلکاروں کا ناحق خون بہایا جائے تو کیا ہم بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔

عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ یہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں، آج سے ٹھیک چھ دن پہلے 21 دسمبر2024 کو جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے 16 جوان دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے،کیا ان کے خون کی قیمت نہیں ہے؟ کیا وہ کے پی کے کے شیر دل جوان نہیں تھے، میں یہ سوال کرتاہوں کہ 2021 میں جب دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے آباد کیا گیا، کس نے ان کو طاقت اور دوام بخشا؟۔

کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ اور اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں، ڈی جی آئی ایس پی آر 

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ یہ جو فیصلے جن کا ہم سب خمیازہ بھگت رہے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے رکھوالے اور جوان ان فیصلوں کی لکھائی اپنے خون سے دھو رہے ہیں،یہ سوال بھی کرتاہوں کہ اگر کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ اور اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں، اگر اس طرح کے ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو دنیا میں کوئی جنگ نہیں ہوتی، ہم یہ جاننا چاہیے کہ جو مسلمان ہے، محبت وطن شہری ہے، قربانی دینا اور جان دینا اس کا فخر ہوتاہے ، ہم اپنے ایمان ،وطن اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو تلخ حقیقت اور تجربہ جس سے ہم گزرے اس سے گزرنے کے بعد بھی کوئی سیاسی شخصیت یہ کہے تو ایسی شخصیت جو اس صلاحیت سے عاری ہو  کہ وہ اپنی غلطی سے کچھ سمجھے، جو یہ سمجھتاہو کہ اسے ہر چیز کا مکمل علم ہے، ایسے رویوں کی قیمت پوری قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہےہیں، یہ جو نام نہاد بات چیت کی پالیسی تھی اس کا خمیازہ آپ اور ہم بھگت رہے ہیں، یہ تکرار واضح کرتی ہے کہ 2021 میں کس نے ضد کی تھی کہ ان سے بات چیت کر کے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے گا،اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص کے پی کے ادا کر رہاہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر  کا کہنا ہےکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس معاملے پر سیاسی اور بیانیے اور کنفوژن نہ بنائیں، کے پی کے میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، گورننس کے خلاء کو شہداء کے خون سے پورا کررہے ہیں،اس پر سیاست کھیلنے کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دی جائے، جس کی وجہ سے وہاں پر احساس محرومی اور دہشتگردی کے لیئے سہولت کاری ہو رہی ہے کیونکہ ہم نے وہ نہیں کرنا تو اس لیے اس پر سیاست کی جائے ، وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ کھڑیں ہوں اور کہیں کہ دہشتگردی کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی۔ 

ڈی جی آئی ایس پی آر  کا کہنا ہےکہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے،اگر کوئی جتھہ ، مسلح پرتشدد گروہ اپنی مرضی اور سوچ مسلط کرنا چاہے اور اس طرز عمل کو قانون کے مطابق نہ روکا جائے تو معاشرے کو کس طرف لے کر جائیں گے،نو مئی کی ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کو سزا دینے کا عمل مکمل ہو چکا ہے،فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے معاملے پر سول حاکمیت اور شفافیت کی کمی کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے، فوجی عدالتیں آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے موجود ہیں اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔

ملٹری کورٹ کے فیصلو ں پرخوش ہونا چاہیئے، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر آرمی چیف ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے،کچھ عرصہ پہلے بیانیہ بنایا گیا کہ حملے ایجنسیوں نے کرائے،انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیئے ،کہ ایجنسیوں کے بندوں کو سزائیں ہوئیں،فوجی عدالتوں کے پراسس پر پروپیگنڈہ بنایا جاتا ہے،اس کی مخالفت کرنے والے بھی پہلے فوجی عدالتوں کے بہت بڑے داعی ہوتے تھے،پہلے بیانیہ بنایا گیا کہ فوج نے خود اپنے بندوں کے ذریعے حملے کرائے،اگر فوج نے اپنے لوگوں کو عدالتوں کے ذریعے سزائیں کرائیں تو انہیں خوش ہونا چاہیے۔

مغرب میں سیاسی انتشاری کی کوئی جگہ نہیںِ، ڈی جی آئی ایس پی آر  

ڈی جی آئی ایس پی آر  کا کہنا ہےکہ کیپٹل ہل اور لندن حملوں کے بالغ اور نابالغ مجرمان کو سپیڈی جسٹس کے تحت سزائیں دی گئیں،مغربی ممالک میں سیاسی انتشاری کی کوئی جگہ نہیںِ،نوجوانوں اور بچوں کو زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے اداروں کے خلاف کھڑا کیا گیا،والدین کو دیکھنا چاہیے کہ کس طرح انہیں اپنے ایجنڈے کی بھینٹ چڑھایا گیا،کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں،جو اس بیانیے اور پروپیگنڈے کی بنیاد رکھتے ہیں اصل ملزم وہ ہیں،انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک نو مئی سے جڑے منصوبہ ساز اور اصل گھناؤنے کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا۔

سیاستدانوں کے مذاکرات خوش آئند ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کا ہر حکومت کے ساتھ سرکاری اور پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے،حکومتیں سیاسی جماعتیں بناتی ہیں،سرکاری اور پیشہ ورانہ تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں،پاکستان فوج قومی فوج ہے، کسی خاص مکتبہ فکر یا پارٹی کی نمائندگی نہیں کرتی،ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈر قابل احترام ہیں، کوئی فرد واحد اس کی سیاست اور اس کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بالاتر نہیں،سیاسی جماعتوں میں مزاکرات اور اس پر جواب دینا سیاسی جماعتوں کا استحقاق ہے، خوش آئند ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں نہ کہ انتشاری اور پرتشدد سیاست کے ذریعے۔

جو آفیسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے جواب دینا پڑے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر  

ڈی جی آئی ایس پی آر  کا کہنا ہےکہ 9 مئی ایک مربوط سازش تھی اور جو اس سازش کے پیچھے تھے انہیں کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔فیض حمید کو تمام قانونی حقوق او رمعاونت حاصل ہے،فوج میں کوئی شخص اپنے عہدے کو ذاتی مفاد یا ایجنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے تو خوداحتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے،فوج کسی مخصوص پارٹی یا نظریے کی حمایتی ہے نہ مخالف،کوئی بھی آفیسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے جواب دینا پڑے گا،مخصوص سیاستی جماعت کی نومبر سازش کے پیچھے سیاسی دہشت گردی کی سوچ ہے،تشدد کی سیاست کا سلسلہ 2014 میں پارلیمنٹ اور املاک پر حملوں میں بھی دیکھا گیا،اسی کا تسلسل نو مئی اور اب بھی دیکھا جا رہا ہے۔

26نومبر کےپُرتشددواقعے میں فوج شامل نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے کہا کہ عوام کے شعور کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام ہوئیں اور آئندہ بھی ناکام ہوں گی،پاک فوج نومبر کے پرتشدد واقعے میں شامل نہیں تھی نہ اسے اس مقصد کے لیے تعینات کیا گیا،فوج کی تعیناتی صرف ریڈ زون کی سکیورٹی کےلیے تھی ،انتشاری ہجوم کی سیاسی قیادت کے مسلح گارڈز اور احتجاجیوں نے فائرنگ کی،وزارت داخلہ نے واضح کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اسلحہ دیا ہی نہیں گیا،جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو پہلے سے تیار شدہ سوشل میڈیا فیک کنٹینٹ ڈالا گیا،جس کا مقصد سیاسی جگ ہنسائی سے توجہ ہٹانے اور پہلے سے جاری خلفشار کو بڑھانے کے لیے بے بنیاد الزام لگانا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر  کا کہنا ہےکہ آپ آنسو گیس اور اسلحہ لے کر دھاوا بولتے ہیں، پولیس رینجرز کو شہید کرتے ہیں تو یہ سیاسی احتجاج نہیں سیاسی دہشت گردی ہے،مسلح جتھے لے کر وفاق پر حملہ آور ہوں اور اسے سیاست مان لیں تو کل کوئی بھی دہشت گرد اسلحے اور پیسے کے بل بوتے پر اپنی طاقت مسلط کرے گا۔

واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفریس کا انعقاد ایسے وقت پر ہورہا ہے جب افغانستان میں طالبان جنگجوؤں پر حالیہ حملوں کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کالعدم تنظیمیں، بشمول تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مختلف شہروں میں ممکنہ دہشت گرد ی کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا تھا کہ پکتیکا میں پاکستانی فوج کے فضائی حملے میں سویلینز کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

Watch Live Public News