اسلام آباد(پبلک نیوز) ظاہر جعفر نے نور مقدم کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ اسلام آباد پولیس کو ملزم کے موبائل فون کے ذریعے تشدد کرنے کے ویڈیو ثبوت مل گئے۔تفصیلات کے مطابق نور مقدم کے قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نے اس وحشیانہ جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے بارہا اپنے موقف کو تبدیل کیا، اسلام آباد پولیس کو ملزم کے موبائل فون پر نور پر تشدد کرنے کے ویڈیو شواہد کے علاوہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ملی ہے۔ ذرائع نے مزید کہا فوٹیج میں لڑکی کو پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر اور مرکزی دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے گھر سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد نور مقدم کو سیکیورٹی گارڈ کے کیبن میں بھاگتے ہوئے اور اپنے آپ کو اس میں بند کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ ملزم نور پیچھے آگیا اور اسے کیبن سے باہر گھسیٹا، جبکہ سیکیورٹی گارڈ اور گلی میں موجود دیگر افراد نے واقعہ کا مشاہدہ کیا۔تاہم کسی نے بھی ظاہر کو نہ روکا۔ مقتولہ کے اہل خانہ نے مبینہ طور پر تفتیشی ٹیم کو مطلع کیا تھا کہ نور نے اپنے ڈرائیور کو 70000 روپے ملزم کے گھر لانے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے مزید کہا کہ متاثرہ لڑکی کے اکاؤنٹ سے اس کے گھر سے یا کسی دوسرے رشتہ دار سے رقم لیے جانے کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں بھی مزید دو دن کی توسیع کردی گئی۔ کارروائی کے دوران ، ریاستی پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے عدالت کو کیس کی پیشرفت سے آگاہ کیا اور مزید کہا کہ ملزم سے ایک پستول برآمد کیا گیا ہے اور اس کے فون سے مزید ڈیٹا برآمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پراسیکیوٹر نے کیس سے وابستہ اضافی افراد کی گرفتاری کے بعد اس مقدمے میں نئی دفعات شامل کیں ہیں جبکہ ملزم کے قانونی وکیل انصر نواز مرزا نے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی مخالفت کی۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے ملزم کے والدین کو بھی گرفتار کیا تھا۔ ہفتے کی رات کو پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو وفاقی دارالحکومت میں حراست میں لیا تھا۔ پولیس نے تفتیش کے لئے گھریلو مددگار افتخار اور جمیل کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی گرفتاریوں کو نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کے بعد عمل میں لایا گیا۔
اتوار کے روز پولیس نے دونوں والدین کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے انہیں اور ان کے دونوں نوکروں کو دو روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم سنایا ہے تاہم پولیس نے نور کے قتل سے وابستہ مزید گرفتاریوں سے انکار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس قتل سے وابستہ تمام براہ راست یا بلاواسطہ ثبوت اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ذاکر جعفر، عصمت آدم جی نوکروں افتخار اور جمیل کو حقائق چھپانے اور جرم میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مزید ملزمان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے اس معاملے میں قانون کی متعلقہ شقوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ نور مقدم کے قتل اور سر قلم کرنے سے ملک بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے اور ہزاروں افراد نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ جمعہ کو جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد میں قتل کے بعد اس کا سر قلم کیا گیا ہے۔