ویب ڈیسک: لاہور ہائیکورٹ نے سینئر صحافی رضوان رضی کو ایف آئی اے پیشی سے استثنیٰ دیدیا۔ عدالت نے ایف آئی اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو بلا کر بٹھائے رکھنا ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سمیت دیگر اداروں کی عادت بن گئی ہے۔ ادارے شہریوں کو بلاکر اس لئے بٹھائے رکھتے ہیں کیونکہ انکوائریز آگے چلانے کا کوئی مواد نہیں ہوتا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں سینئر صحافی رضوان رضی کو ایف آئی اے کے نوٹسز بھجوانے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس اسجد جاوید گھرال نے رضوان رضی کی آئینی درخواست پر سماعت کی۔
سرکاری وکیل کی طرف سے صحافی رضوان رضی کی درخواست کی مخالفت کی گئی۔ عدالت نے شہریوں کیخلاف ایف آئی اے کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میرے خلاف کوئی الزامات ہیں، تو ان الزامات کی لسٹ تو دیں۔ اداروں کو کارروائی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن قانون کے مطابق تو چلیں۔ شہریوں کو بلا کر بٹھائے رکھنا ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سمیت دیگر اداروں کی عادت بن گئی ہے۔ ادارے شہریوں کو بلاکر اس لئے بٹھائے رکھتے ہیں کیونکہ انکوائریز آگے چلانے کا کوئی مواد نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے پہلے عدالت میں جواب جمع کرائے، پھر اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔
صحافی رضوان رضی کی طرف سے بیرسٹر حسنین چودھری پیش ہوئے۔ عدالت نے ایف آئی اے کو دو ہفتوں میں تفصیلی جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
درخواستگزار کے وکیل نے بتایا کہ نوٹس بھیجنے پر صحافی رضوان رضی ایف آئی اے کے روبرو پیش ہوئے۔ درخواستگزار نے ایف آئی اے سے الزامات کی فہرست مانگی جو آج تک نہیں دی گئی۔ الزامات کی فہرست دیے بغیر اب ایف آئی اے نے 29 اگست کو یکطرفہ کارروائی کا نوٹس دیدیا ہے۔ ایف آئی اے شہریوں کو طلب کر کے سارا دن بٹھا کر تضحیک کرتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوئے تو صحافی رضوان رضی کو گرفتار کر لیا جائیگا۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد صحافی رضوان رضی کو ایف آئی اے کی پیشی سے استثنی دیدیا۔