کیف: (ویب ڈیسک) روس اور یوکرین کے درمیان جاری لڑائی کے تناظر میں اطلاعات آئی ہیں کہ دونوں ممالک نے مذاکرات پرآمادگی ظاہر کی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کیف کی جانب سے ماسکو کے ساتھ مذاکرات کرنے پر رضامندی کے بعد ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ یوکرینی اور روسی وفود کے درمیان مذاکرات آج پیر کو بیلاروس کی سرحد پر شروع ہوں گے۔ بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کا ثالثی کا اعلان معلومات میں مزید کہا گیا کہ یوکرین کی طرف سے مذاکرات میں شمولیت بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جانب سے ثالثی کے اعلان کے بعد دی گئی۔ جہاں کیف نے بغیر کسی پیشگی شرط کے چرنوبل کے قریب بیلاروس کے ساتھ سرحد پر ماسکو کے ساتھ بات چیت کے انعقاد کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے مزید تفصیلات بتائے بغیر تصدیق کی کہ یہ ملاقات بیلاروس کے علاقے گومیل میں ہوگی۔ یوکرین کے ایوان صدرنے سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ کیف کا وفد بغیر کسی پیشگی شرط کے روسی وفد سے دریائے پرپیات کے علاقے میں یوکرائن بیلاروسی سرحد پر ملاقات کرے گا، جو یوکرین کی جانب سے اس خطے کا قریب ترین شہر ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار کو اعلان کیا کہ ان کا ملک ان مذاکرات سے اہم نتائج کی توقع نہیں رکھتا۔ ایک ویڈیو بیان میں زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے اپنے بیلاروسی ہم منصب الیگزینڈر لوکاشینکو کے ساتھ طویل بات کی اور یہ بات چیت ضروری تھی۔ انہوں نے کہا لوکاشینکو نے وعدہ کیا کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے اپنے ملک کی سرزمین استعمال نہیں کرے گا اور روسی فوجی آپریشن میں حصہ نہ لینے پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کی فوج اپنی جگہ پر ہیں اور اپنے ملک کا دفاع کریں گی۔ بیان میں اشارہ دیا کہ بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اپنے یوکرینی ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ بیلاروسی سرزمین پر تعینات (روسی) طیارے، ہیلی کاپٹر اور میزائل یوکرائنی وفد کی آمد اور روانگی کے ساتھ ساتھ بات چیت کے دوران بھی موجود رہیں گے۔ یوکرین میں حملے دوبارہ شروع قابل ذکر ہے کہ یوکرین کی سرزمین پر موجودہ 24 فروری کی صبح شروع ہونے والا روسی فوجی آپریشن جمعہ کو کچھ دیر کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد یہ کارروائی تمام سمتوں میں دوبارہ شروع کر دی گئی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بھی گذشتہ مہینوں کے دوران غیر معمولی کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس میں اضافہ اس وقت ہوا جب روسی صدر ولادی میر پوتین نے مشرقی یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں کو آزاد ریاستیں میں تسلیم کر لیا۔اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی شروع ہوگئی اور روس نے بڑے پیمانے پر یوکرین پر حملے شروع کردیے۔ روسی صدر نے ایٹنی ہتھیاروں کو تیار رکھنے کا حکم دیدیا ادھر روسی صدر نے جوہری ہتھیاروں کا کھل کر نام لیے بغیر انہیں خصوصی الرٹ پر رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے ’ڈیٹیرنٹ ہتھیاروں‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ اتوار کے روز ماسکو حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں صدر پوتین کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے ان ہتھیاروں کو سپیشل الرٹ پر رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے جارحانہ بیانات کے تناظر میں وہ ملکی وزیر دفاع اور چیف آف جنرل سٹاف کو کہتے ہیں کہ وہ روسی فوج کی ’ڈیٹیرنٹ فورسز‘ کو خصوصی الرٹ کی سطح پر رکھیں۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے دفاعی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ ان فورسز سے مراد روس کی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلقہ فورس ہے۔ اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ یوکرین میں جاری روسی عسکری کارروائی میں ماسکو نے توانائی کی تنصیبات پر میزائلوں سے حملے شروع کر دیے ہیں۔ روسی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی کییف کی طرف پیش قدمی جاری ہے جبکہ دو یوکرائنی شہروں کا مکمل محاصرہ بھی کر لیا گیا ہے۔ کیف میں یوکرین کے جوہری توانائی کے نگران محکمے نے ستائیس فروری کی صبح بتایا کہ روسی دستوں نے گذشتہ رات ملکی دارالحکومت کے مضافات میں جوہری فاضل مادوں کی ایک ذخیرہ گاہ کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ یوکرین کیلئے آئندہ چوبیس گھنٹے انتہائی اہم یوکرین پر روسی فوج کے حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پیر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے الگ الگ ہنگامی اجلاس ہو رہے ہیں۔ یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹے ان کے ملک کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے بورس جانسن سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ اگلے چوبیس گھنٹے یوکرائن کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جانسن نے زیلنسکی کو یقین دہانی کرائی کہ برطانیہ اور اس کے اتحادی اس بات کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ دفاعی امداد کسی بھی صورت میں یوکرائن پہنچ سکے۔ وولودومیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ روسی جارحیت کے نتیجے میں کئی اہم شہروں میں جاری جنگ کے باوجود وہ صدر ولادیمیر پوٹن سے امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا، "گوکہ مجھے میٹنگ کے نتیجہ خیز ہونے کی توقع نہیں، تاہم ہم کوشش کرتے ہیں۔" دونوں ملکوں کے مندوبین پیر کے روز کسی شرط کے بغیر یوکرائن۔ بیلاروس کی سرحد پر ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل زیلنسکی نے یہ کہتے ہوئے بات چیت سے انکار کردیا تھا کہ روس نے ان کے ملک پر حملہ کیا ہے۔ جوہری جنگ کا خدشہ روس کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے یوکرینی صدر کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ولادیمیر پیوتن کے بیان سے مغرب کے ساتھ روس کے نیوکلیائی جنگ کاخدشہ لاحق ہو گیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے "جارحانہ بیانات" اور سخت اقتصادی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے پیوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کو تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں کہیں ارادتاً یا غلطی سے جوہری جنگ شروع نہ ہوجائے۔ امریکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ روسی رہنما نے فورسز کو ایک ایسی حالت میں ڈال دیا ہے کہ اگر اندازے کی ذرا سی بھی غلطی ہوئی تو حالات بہت زیادہ بلکہ انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔