ویب ڈیسک: ملائشیا کی جنوبی ریاست جوہر کے ارب پتی سلطان ابراہیم اسکندر نے ملائشیا کے بادشاہ کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ وہ السلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ کی جگہ لیں گے، جو بطور بادشاہ اپنے پانچ سالہ دور کے اختتام پر اپنی آبائی ریاست پہانگ کی قیادت کے لیے واپس لوٹیں گے۔
اس موقع پر سلطان ابراہیم نے قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پروگرام کے دوران کہا، ''اس حلف کے ساتھ، میں پوری سنجیدگی سے اور سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ ملائشیا کے قوانین اور آئین کے مطابق منصفانہ حکومت کروں گا۔''
سلطان ابراہیم اسکندر نے کوالالمپور کے قومی محل میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے شاہی خاندان کے متعدد افراد کے ساتھ ہی وزیراعظم انور ابراہیم اور ان کی کابینہ کے ارکان کی موجودگی میں دستاویز پر دستخط کیے۔ ان کی تاج پوشی کی تقریب بعد میں منعقد کی جائے گی۔
سن 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ملائشیا میں ایسی بادشاہت کا نظام رائج ہے، جہاں کسی ایک ریاست کے شاہی خاندان کے فرد کو پانچ برس کے لیے بادشاہت کے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔
ملائشیا میں بادشاہ کو عام طور پر 'خدا کا مقرر کردہ بادشاہ' کہا جاتا ہے، تاہم حکومتی امور میں بادشاہ بڑے پیمانے پر رسمی کردار ہی ادا کرتا ہے۔ حکومت کے تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں۔
بادشاہ حکومت اور مسلح افواج کا محض برائے نام سربراہ ہوتا ہے اور اسے اسلام اورملائشیا کی روایات کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔
تمام قوانین، کابینہ کی تقرریوں اور عام انتخابات کے لیے پارلیمنٹ کی تحلیل کے لیے بادشاہ کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ بادشاہ کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے اور مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
سلطان ابراہیم اسکندر کا تعلق ملائشیا کی جوہر ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ماں برطانوی نژاد ہیں۔ وہ فوج، بحریہ اور فضائیہ کے افسر بھی رہ چکے ہیں اور اپنی بیشتر تعلیم امریکہ میں حاصل کی ہے۔
وہ اہم کاروباری مفادات سے مربوط بھی ہیں، جن میں جوہر کے ساحل پر سو ارب ڈالر کی مالیت کے فاریسٹ سٹی کے ترقیاتی منصوبے کے حصص بھی شامل ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی فعال رہتے ہیں۔ ان کے پاس لگژری اور اسپورٹس کاروں کے ساتھ ہی پرائیویٹ جیٹ طیاروں کا بھی ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
ان کے چھ بچے ہیں اور انہوں نے غریبوں میں خیرات تقسیم کرنے کے لیے ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ماضی میں ریاست جوہر کے ارد گرد سالانہ دورے بھی کیے ہیں۔