افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، یو این سی ایچ آر 

کیپشن: افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، یو این سی ایچ آر 

پبلک نیوز: طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان زمانہ قدیم میں منتقل ہو چکا ہے،انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث افغانستان کی عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 29 اپریل 2024 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ( یو این ایچ سی آر)  نے افغانستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر رپورٹ شائع کی۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے افغان عوام کو شدید جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا سامنا ہے،طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جن میں ماورائے عدالت قتل، انتقامی قتل، تشدد، ذلت آمیز سلوک، جبری گمشدگی، من مانی گرفتاریاں اور نظر بندی سر فہرست ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان نیشنل سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جسکے تحت 800 اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے،طالبان نے سابق سرکاری اہلکاروں سے لے کر صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور اقلیتی برادریوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے  مطابق جنوری 2022 سے جولائی 2023 کے درمیان اقوام متحدہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 1600 سے زائد واقعات ریکارڈ کیے،نومبر 2022 اور اپریل 2023 کے درمیان، افغانستان میں اقوام متحدہ نے جسمانی سزاؤں کے 43 سے زائد واقعات رپورٹ کیے۔طالبان رجیم میں 58 خواتین اور 274 مرد بشمول بچوں کو مختلف جرائم کی مد میں کوڑے مارے گئے۔

طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے افغان میڈیا کو بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگست 2021 سے اب تک میڈیا کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے 245 مقدمات درج کیے گئے جن میں حراست اور جسمانی تشدد کے 130 مقدمات اور 61 صحافیوں کی گرفتاریاں شامل ہیں،طالبان نے تمام قوانین، قواعد اور پالیسیوں کو منسوخ کر دیا جسکے باعث افغانستان میں انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ مسخ ہو چکا ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی عدالتوں میں اپنے حامی ججوں کو تعینات کرنے کے ساتھ طالبان قیدیوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔
  رپورٹ کے مطابق طالبان کی کابینہ فرقہ وارایت کو فروغ دیتے ہوئے محض مرد  ارکان پر مشتمل ہے،طالبان نے الیکشن کمیشن، پارلیمانی امور اور امن کی وزارت کو تحلیل کیا جس سے افغانستان میں امن کی صورتحال شدید بگڑ گئی۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کی نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ لاکھوں افراد کو خوراک اور پانی کے عدم تحفظ کا سامنا ہے، افغانستان پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دہشتگردی کے مقاصد کے لیے مختص کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ  کے مطابق افغانستان میں 29.2 ملین سے زائد افراد انسانی امداد کے محتاج ہیں۔

رپورٹ کے مطابق طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم سے روکنے کے ساتھ این جی اوز پر تعلیمی پروگرام فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی،طالبان کی جانب سے نابالغ اور کم سن بچیوں کو جبری شادی کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قبضے کے بعد طالبان نے خواتین کے کام کرنے پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے جس سے 60 ہزار سے زائد خواتین متاثر ہوئی ہیں،طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے صحت کا نظام بھی تباہ ہو گیا۔طالبان کے زیر اقتدار افغان لڑکیوں میں خودکشی کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے اقلیتوں کو مسلسل ظلم و ستم، جبری نقل مکانی اور ٹارگٹ کلنگ کا سامنا ہے،طالبان رجیم میں ہزارہ کمیونٹی کے 334 افراد ہلاک اور 631 زخمی ہوئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق2021 سے 2022 کے درمیان چائلڈ لیبر کے 4,519 واقعات رپورٹ ہوئے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی بارہا وارننگ جاری کرنے کے باوجود طالبان نے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں لیے۔