نیب ترامیم کیس سماعت کیلئےمقرر،عمران خان دوبارہ پیش ہوں گےیا نہیں؟اہم خبر

نیب ترامیم کیس سماعت کیلئےمقرر،عمران خان دوبارہ پیش ہوں گےیا نہیں؟اہم خبر
کیپشن: نیب ترامیم کیس سماعت کیلئےمقرر

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس 30مئی کوصبح ساڑھے 11بجےسماعت کیلئےمقرر کردیا۔

تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم سےمتعلق کیس کی سماعت 30 مئی صبح ساڑھے 11 بجے کیلئےمقرر کردی گئی۔عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے دوبارہ پیش ہوں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت  پر نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی تھی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ  نے سماعت کی تھی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ تھے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیولنک سے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے آسمانی کلر کی شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔

وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئےتھے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے۔ آپ کے نہ آنے پرمایوسی تھی۔ ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود ہے۔سینیٹر فیصل جاویدخان ،سابق سینیٹر اعظم سواتی ،سینیٹر شبلی فراز  ،رکن قومی اسمبلی علی محمد خان ،بانی چئیرمین کی بہنیں علیمہ خانم اور عظمی خانم کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ، سینیٹیر اور وکیل بابر اعوان سینئیر وکیل فیصل چودھری، بیرسٹر علی ظفر بھی موجود ہیں۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ،نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ سمیت  پی ٹی آئی کے 15 کے قریب وکلاء و رہنما سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے۔

 چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تمام وکلاء سے سینئرہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکردیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواء ہے۔

 جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التواء درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی۔

وکیل نے جواب دیا کہ جی اسے قابل سماعت قراردے دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لیک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر سماعت ہے۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کل میں نے چیک کیا ابھی تک زیر التوا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ 

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔ مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا۔ مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔ الیکشن کے معاملےپر سپریم کورٹ میں پہلے نو رکنی لارجر بینچ تھا۔ دو ججوں نے معذرت  کی تو پھر 7 رکنی بینچ باقی رہ گیا۔ 2 ججوں نے رائے کا اظہار کردیا اور کہا کیس قابل سماعت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کے پہلے دن کوئی جج رائے کا اظہار کرے تو وہ بینچ سے الگ نہیں ہوجاتا۔ اس کیس میں کوئی جج اپنی رائے کا اظہار کردے تب بھی وہ بینچ کا حصہ رہے گا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ فیصلے کی ایک اور چیز بھی اہم ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز نے کہا تھا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے لازم ہیں۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے۔ کیا قانون معطل کر کے بینچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا۔ 

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے۔ حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا۔ متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں۔ اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواستگزار کھڑے ہوں گے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھا یا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قانون کو معطل کرکے پھر اس کیس کو سناہی نہ جائے تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟ آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں؟ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں۔ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔ ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے۔

عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی تھی۔

عمران خان کی ویڈیو لنک سےپیشی لائیونشر کرنے کیلئےدرخواست
گزشتہ روز بانی پاکستان تحریک انصاف  عمران خان کی ویڈیو لنک سے پیشی کامعاملہ،خیبر پختونخوا حکومت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت لائیو نشر کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی، درخواست نیب ترامیم کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید کوثر علی شاہ کی جانب سے دائر کی گئی۔

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عوامی مفاد کے مقدمات کی سماعت بینچ ون سے لائیو اسٹریم کی جاتی ہیں، نیب ترامیم کیس کی اپیلوں کی سماعت لائیو اسٹریم نہیں کی گئی۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ نیب ترامیم کیس کی لائیو اسٹریمنگ نہ ہونا امتیازی سلوک ہے، لہذا استدعا کی جاتی ہے کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

Watch Live Public News