ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں نظرثانی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ احمدیوں کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ فیصلوں سے انحراف نہیں ہو سکتا۔
تفصیلات کے مطابق نظرثانی درخواستوں سے متعلق محفوظ فیصلہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے رکن جسٹس نعیم اختر افغان نے پڑھ کر سنایا، جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا، جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق نظرثانی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر آج ہی اپ لوڈ کیا جائے گا۔
قادیانی ایک بارپھرسپریم کورٹ سےکافر ڈکلئیر ہوچکےہیں، سپریم کورٹ نےمبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی اپیل منظور کرلی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق "حضرت محمدﷺ، کی ختم نبوت پرمکمل اورغیرمشروط ایمان کےبغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، "آرٹیکل260 میں ختم نبوت کوایمان کالازمی جزو قراردیا گیاہے،احمدی کہنےوالوں کےحوالے سے شریعت کورٹ کےمجیب الرحمٰن فیصلےکو اہمیت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق احمدیوں کےحوالے سےوفاقی شرعی عدالت اورسپریم کورٹ کےفیصلوں سےانحراف نہیں ہوسکتا، آئین میں دیاگیا مذہبی آزادی کابنیادی حق آئین،قانون اورامن عامہ سےمشروط ہے،عدالت معاملہ پردینی مدارس کی تجاویزمعاونت پرمشکور ہے۔
واضح رہے کہ مبارک احمد ثانی پر توہین قرآن اور دیگر دفعات کے تحت درج مقدمے میں سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کی تھی، جس پر ملک بھر سے علماء کے ردعمل کے بعد پنجاب حکومت اور دیگر فریقین نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 21 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ اردو میں تحریر کیا گیا ہے، جس میں تمام تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے جید علماء کی جانب سے دی گئی معاونت کو شامل کیا گیا ہے، فیصلہ میں قرآن وحدیث کے حوالہ جات بھی شامل ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ امید ہے تفصیلی فیصلہ پڑھنے سے ابہام دور ہو جائے گا، حضرت محمد صلی اللہ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، آرٹیکل 260 میں ختم نبوت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیے کہ احمدی کہنے والوں کے حوالے سے شریعت کورٹ کے مجیب الرحمٰن فیصلے کو اہمیت حاصل ہے، احمدیوں کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ فیصلوں سے انحراف نہیں ہو سکتا، آئین میں دیا گیا مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین، قانون اورامن عامہ سے مشروط ہے۔
سپریم کورٹ نے چھ فروری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فرد مبارک احمد ثانی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا، جبکہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی چلائی گئی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ سماعت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل اور جامعہ نعیمیہ سے معاونت طلب کرتے ہوئے قرآن اکیڈمی کراچی اور جمعیت اہلحدیث کو بھی حکم نامے کی کاپی ارسال کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ اسلامی اسکالر یا کوئی بھی ذمے دارشخص عدالت کی معاونت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
6 دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں تحفظ ختم نبوت فورم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ کی مدعیت میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت 5 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق 7 مارچ 2019 کومدرسۃ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی ’تفسیرِ صغیر‘ طلبا میں تقسیم کی گئی تھیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیرکی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ تقریب کے منتظمین اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔