ویب ڈیسک: عدالت میں کیس دائر ہونے کے بعد اب ملین ڈالر سوال ہے کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ اس وقت کہاں ہے؟ معروف تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے انکشاف کیا ہے کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی 12 جلدیں تھیں تاہم جنرل ضیاءالحق کے حکم پر 11 جلدیں تلف کردی گئیں۔ ایک اب بھی موجود ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اس رپورٹ کے مندرجات انڈیا میں شائع ہوئے تو پاکستان میں اسے عام کر دیا گیا اور یہ رپورٹ بڑے سائز کے 545 صفحات پر مشتمل تھی۔
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ٹولے پر بھی سر پر سوار رہی۔ کمیشن کی رپورٹ کی تلاش میں وزیراعظم بھٹو کی تیسری اہلیہ حسنہ شیخ کے گھر کی بھی تلاشی کروائی گئی تھی۔
انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع ہونے والے مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے خصوصی حکم کے تحت سپیشل فورسز کے کمانڈو کرنل طارق محمود نے رات کے اندھیرے میں 70 کلفٹن کراچی پر خفیہ آپریشن کرایا تھا اور کمانڈو طارق محمود کھڑکی کے راستے میں سے مسٹر بھٹو کے بیڈروم پہنچے تھے اور گرفتاری کے بہانے ان کے بیڈ روم کی تلاشی لی گئی تھی۔
خبریں گردش کر رہی تھیں کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کی تمام جلدیں ان کے بیڈروم کے بستر کے نیچے سے دستیاب ہو گئی تھیں جو بعد ازاں جنرل ضیاء الحق نے تلف کرا دی تھیں۔
حمود الرحمان کمیشن کا قیام:
مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد حمود الرحمٰن کمیشن کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے 10 روز بعد 26 دسمبر 1971 کو ہوا جسے اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور عبوری صدر ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے زبردست دباؤ اور مغربی پاکستان میں عوامی بغاوت کے خوف سے بنایا تھا۔
20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان کے استعفے کے بعد صدر بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کو حفاظتی نظربندی کے تحت ایبٹ آباد کے ریسٹ ہاؤس میں نظربند کر دیا تھا۔
حمودالرحمن کمیشن نے یکم فروری 1972 سے کام شروع کر کے 12 جولائی 1972 کو عبوری رپورٹ جمع کرا دی جس میں بتایا گیا کہ حتمی رپورٹ جنگی قیدیوں کے وطن واپسی سے مشروط ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کا سیکرٹریٹ سابقہ مشرقی پاکستان ہاؤس پشاور روڈ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک حصہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے مختص تھا۔
حتمی رپورٹ 23 اکتوبر 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کی گئی جسے فوری طور پر کلاسیفائیڈ (خفیہ) قرار دیا گیا۔ حمود الرحمٰن کمیشن کے ایک رکن لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس انوارالحق اور سندھ ہائی کورٹ کے جج طفیل عباس رحمٰن تھے جنہوں نے حمود الرحمٰن کی معاونت کی تھی۔
اس رپورٹ کے مندرجات کی ذرائع ابلاغ تک رسائی ممنوع قرار دی گئی تھی، بلکہ حمود الرحمٰن کے قریبی ساتھی جسٹس انوار الحق کے گھر بھی رات کے اندھیرے میں خفیہ پولیس کے ذریعے چھاپے بھی مارے گئے تھے کیونکہ صدر بھٹو کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ حمود الرحمٰن کمیشن نے سقوطِ ڈھاکہ کے سیاسی پہلوؤں پر ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس رپورٹ کے خفیہ پہلوؤں کو پوشیدہ رکھا ہے۔
عوامی دباؤ کے باوجود بھی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سلامتی و بقا کے نام پر رپورٹ منظرِعام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا۔