سپریم کورٹ نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں زیر تعلیم طلبہ کو امتحان دینے کی اجازت دے دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں مبینہ جعلی لا سٹوڈنٹس داخلوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی سپریم کورٹ نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے لا سٹوڈنٹس کو امتحان دینے کی اجازت دے دی ہے۔امتحانات کے بعد سٹوڈنٹس کا تمام ریکارڈ عدالتی حکم کے تحت قائم کمیٹی کو بھجوایاجاے گا عدالت نے کمیٹی سے امتحانات کے بعد دو ہفتوں میں سٹوڈنٹس کے داخلوں پر رپورٹ طلب کرلی . وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ 14 ہزار جعلی سٹوڈنٹس کے داخلے سامنے آئے ہیں۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 14 ہزار طالب علم تو سوچ سے باہر ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں تین سالہ لا ڈگری ختم کرنے کا حکم دیا تھا .یونیورسٹی کے وکیل نے کہا کہ 2016 کے داخلے کے ہی اب امتحانات لئے جا رہے ہیں۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2016 کے داخلوں کا امتحان اب 2022 میں لینے کی سمجھ نہیں آتی ایک سیسشن میں 14 ہزار داخلے سمجھ سے باہر ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ 9 ہزار داخلے جعلی ہیں .وکیل یونیورسٹی نے کہا کہ 38 لا کالجز بہاء الدین یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک ایک کمرے کے لا کالج بنائے گئے یہ تو پیسہ کمانے کیلئے ایک کاروبار بن چکا ہے ۔ وکیل بار کونسل نے عدالت میں کہا کہ عدالتی حکم پر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی نے کسی کالج کو ڈی ایفیلیٹ نہیں کیا ،جس پر فاضل جج اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 32 لا کالجز کو فوری طور پر ڈی ایفیلیٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر کے خلاف عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی بنتی ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود جعلی کالجز کی یونیورسٹی سے ایفیلیشن ختم نہیں کی گئیں،سکروٹنی کے عمل میں ایف آئی اے کو بھی شامل کریں گے جعلی داخلے کوئی چھوٹا سکینڈل نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایف آئی اے کو شامل کیا یا امتحانات روکے تو چھ سال کچھ نہیں ہوگا جینئوئن طالب علموں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔عدالت نے مزید سماعت کمیٹی رپورٹ آنے تک ملتوی کردی۔