ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، تحریک عدم اعتماد برقرار، قومی اسمبلی بحال

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، تحریک عدم اعتماد برقرار، قومی اسمبلی بحال
اسلام آباد: اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس پرسپریم کورٹ آف پاکستان نےمحفوظ فیصلہ سنا دیا ہے،عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم قرار دیدی.عدالت نے قومی اسمبلی تحیل کرنے کا فیصلہ مسترد کردیا اور قومی اسمبلی بحال کردی. عدالت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 9 اپریل کو کرانے کا حکم دیدیا گیا ہے.عدالت نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو فوری نئی وزیر اعظم کا الیکشن کرایا جائے. سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں‌کہا ہے کہ کسی ممبر کو ووٹ دینے سے نہیں‌روکا جائے گا.عدالتی احکامات پر فوری عمل در آمد کیا جائے.اسپیکر تحریک عدم اعتماد نمٹانے تک اجلاس موخر نہیں کر سکیں گے. چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلا لیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن آگاہ کرے جس پر چیف الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں‌.مسلہ حلقہ بندیوں کا ہے جو الیکشن سے پہلے ضروری ہیں‌،حلقہ بندیاں‌نہیں‌ہوسکیں‌تھیں.چیف الکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ الیکشن کیلئے سات ماہ کا وقت درکار ہے. اس سے قبل اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس پرسپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہے اور یہ سامنے آچکا ہے،اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔ تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت آج دوبارہ ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے اس تاریخی کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بنچ کا حصہ تھے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل احمد اویس کا کہنا تھا کہ کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی جب ایک نجی ہوٹل میں حمزہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ آج سابق گورنر پنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں۔ انہوں نے سرکاری مشینری کا اجلاس بھی بلا لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔ ہم نے اس معاملہ پر فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہم نے صرف قومی اسمبلی کے معاملہ کو دیکھنا ہے۔ جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کل ٹی وی پر یہ بھی دکھایا گیا پنجاب اسمبلی کو تالا لگا دیا گیا۔ پنخاب میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ موجود ہے وہاں جایا جائے۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر اپنے دلائل شروع کرنے لگے تو جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ اس پر جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے، اسے تحفظ حاصل ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔ آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ججز کے درمیان تفریق ہو، وہ ایک دوسرے کو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت نے خود معاملہ نمٹانا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ اگر ججز کا آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کر سکتی، ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پرائم منسٹر کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لئے ہے اس نے اپنا سپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلہ کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے۔ یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے۔ کہیں تو لائن کھیچنا پڑے گے۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا تو عدالت نے اس کو غیر آینی قرار دیا۔ عدالت نے اسمبلی کا خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی۔ اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ میری یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ واضح کریں کہ کوئی آئینی بحران ہے تو کیسے ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ آئینی بحران کہاں ہے؟ ہمیں تو کہیں بحران نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے تقرر کا عمل بھی جاری ہے۔ اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر قومی اسمبلی واپس بھی بحال ہوئی تو ملک میں سیاسی بحران رہے گا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن بھی ملک میں استحکام چاہتی ہے۔ میں رولنگ کو غیر منظم جانتا ہو اور اس کی تائید نہیں کرتا۔ ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے۔ دیکھنا ہے کہ اب اس سے آگے کیا ہوگا۔ قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا۔ میرا نقطہ نظر نئے انتخابات کا ہے۔ جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ کل کو کوئی سپیکر آئے گا، وہ اپنی مرضی کرے گا۔ عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ کون آئے گا اور کون نہیں، ہم نتائج میں نہیں جائینگے۔ عدالت کے روبرو شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا۔ عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی۔ سپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہو جائے گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا۔ آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے۔ ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے۔ اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔ شہباز شریف ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا۔ جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے۔ پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔ ‏حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی۔ ہمارے ممبر 177 ہیں۔ آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔