بھارت کےعدالتی نظام  پرمودی سرکارکاقبضہ

کیپشن: بھارت کےعدالتی نظام  پرمودی سرکارکاقبضہ

پبلک نیوز: بھارت کے عدالتی نظام  پر مودی سرکار کا قبضہ،  2014 کے انتخابات کے بعد سے مودی کی شخصیت عروج پر لیکن بھارت  کی جمہوریت زوال کا شکار ہے جبکہ مودی حکومت کے لیے عدلیہ ہمیشہ سے ا یک سیاسی ورثہ رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق مودی سرکار  نے ریاستی اداروں کے ذریعے  اپنی انتہا پسند پالیسیوں کو ہمیشہ کی طرح   لاگو کروایا ہے۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ سکرول کے مطابق بھارت  کی تمام عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد  2010 اور 2020 کے درمیان سال بہ سال 2.8 فیصد اضافہ ہوا،بی جے پی حکومت کے اقدامات نے التوا کے رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جسکے باعث لوگ انصاف کے منتظر ہیں، مودی کے اقتدار کے بعد سے عدالتوں کو آن لائن منتقل ہونے پر مجبور کیا  گیا جس سے بھارتی  عدالتی نظام بری طرح متاثر ہوا۔

ویب سائٹ سکرول کے مطابق 2014  کے منشور میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے مقدمات کو نمٹانے اور ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کو روکنے کے لیے مودی سرکار نے عدالتوں کے قیام کا بھی وعدہ کیا لیکن  ایسی کوئی عدالتیں نہیں بنائی گئیں،عدلیہ میں عدالتوں اور ججوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا  لیکن   عدالتوں میں افسران کی کل منظور شدہ تعداد میں 2014 اور 2023 کے درمیان صرف 25 فیصد اضافہ ہوا، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مطابق   بھارت  کے قانون کی حکمرانی کا مجموعی اسکور 2015 میں 0.51 سے  گر کر 2023 میں 0.49 ہو گیا۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ سکرول کے مطابق  بھارتی تجزیہ کار  کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے دور میں بھارت میں قانون کی حکمرانی کا عمل بد سے بد ترین ہوتا چلا جا رہا ہے،2019کے منشور میں عوام کے  لیے "ماڈل پولیس ایکٹ" کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔

ہندوستان ٹائمز  کے مطابق حکومت پر عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان گزشتہ دس برسوں میں تناؤ رہا ہے جسکے باعث حکومت کو عدالتی تقرریوں پر ویٹو کا استعمال کرنے کا موقع ملا ہے۔

ویب سائٹ سکرول کے مطابق 2017 میں چیف جسٹس  دیپک مشرا کے خلاف سپریم کورٹ کے چار ججوں  نے پریس کانفرنس  کی۔

 چیف جسٹس  دیپک مشرا  کو مودی سرکار کی حمایت حاصل تھی  جسکے باعث ججوں نے الزام لگایا کہ  مشرا کو باہر سے کسی کے ذریعے  کنٹرول کیا گیا تھا،مودی سرکار اپنے من پسند ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دیتی رہی ہے۔

ویب سائٹ سکرول کے مطابق بی جے پی حکومت  نے رنجن گوگوئی سپریم کورٹ کے سابق جج  کو  عہدے سے سبکدوش ہونے کے فوراً بعدہی  راجیہ سبھا کا رکن بنایا  دیا،بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس پی ستھاشیوم اور ایس عبدالنذیر  کو بھی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد گورنر کے طور پر مقرر کیا  تھا۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 2015 میں قومی جوڈیشل کمیشن کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی بنیاد پر ختم کر دیا تھا، 2014 اور 2019 کے دونوں منشوروں میں قانون کے طریقہ کار  کو آسان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا،2014 کے منشور میں  پیچیدہ قانون سازی کو آسان بنانے کے ساتھ متضاد قوانین کو ہٹانے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن  قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

مودی سرکار نے اپنے مزموم سیاسی  مقاصد حاصل کرنے کے لیے عدلیہ کو بھی نہ چھوڑا،مودی سرکار کی عدلیہ میں غیر معمولی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جمہوری ریاست سے تبدیل ہو کر مودی رجیم بن چکا ہے۔