وادی کہون کے حسن کو گرہن لگ گیا

وادی کہون کے حسن کو گرہن لگ گیا
فیصل اعوان بلند و بالا پہاڑوں حسین وادیوں اور بہتے جھرنوں کی سرزمین وادی کہون کے حسن کو سیمنٹ فیکٹریاں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی ہے بلکہ چمنیوں سے نکلتا زہریلا دھواں نت نئی بیماریوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔ چکوال کی وادی کہون اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ چھپائے اپنی تاریخی اہمیت، صاف فضاؤں بہتے جھرنوں اور قدرتی نظاروں کا مسکن رہی ہے۔ لیکن سیمنٹ فیکٹریوں نے اس کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ فضائیں آلودہ، چشمے خشک اور زیر زمین پانی کی سطح اس قدر نیچے چلی گئی ہے کہ اہل علاقہ جہاں پانی کی کمی کا شکار ہیں وہیں سیمنٹ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتا زہریلا دھواں نت نئی بیماریاں بانٹنے کا سبب بن رہا ہے۔ پانی کی کمی سے وادی کہون کے سرسبز و شاداب نظارے اپنا حسن کھو رہے ہیں یہاں تک کہ کٹاس راج چشمے سمیت دیگر چشمے بھی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ علاقے کے متعدد گاؤں کٹاس راج، تترال، دوالمیال، وعولہ اور ڈلوال کے باسی ماحول کی تباہی اور زیر زمین 400 فٹ تک پانی کی سطح گر جانے کا رونا روتے نہیں تھکتے مگر اس علاقے کے حسن کے سرمائے کو سرمایہ داروں کی سیمنٹ فیکٹریاں مسلسل نگل رہی ہیں جن کو روکنے والا کوئی نہیں۔ وادی کہون کا حسن آخری سانسیں لیتے ہوئے تباہی اور بے قدری کی وہ داستان رقم کر رہا ہے جس میں جگہ جگہ ارباب اختیار کی بے حسی اور مقامی باشندوں کے آنسو بکھرے نظر آتے ہیں۔ سیمنٹ فیکٹریوں نے نہ صرف ماحول کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ تاریخی مقامات، بہتے جھرنے اور سرسبز و شاداب درخت بھی ان کا شکار بنے ہیں۔ اگر بے قدری تباہی اور بے حسی کے اس سلسلے کو روکا نا گیا تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب یہ علاقہ بنجر ہو کر سرمایہ داروں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔

شازیہ بشیر نےلاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 42 نیوز اور سٹی42 میں بطور کانٹینٹ رائٹر کام کر چکی ہیں۔