صدرعارف علوی کوالوداعی گارڈ آف آنر پیش کردیا گیا

صدرعارف علوی کوالوداعی گارڈ آف آنر پیش کردیا گیا
کیپشن: صدرعارف علوی کو گارڈ آف آنر پیش کردیا گیا

ویب ڈیسک: جمعے کے روز صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

تفصیلا ت کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی کے صدر مملکت کے عہدے کی مدت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اور 9 مارچ کو نئے صدر کے انتخاب کے ساتھ ان کی ایوان صدر سے رخصتی ہو جائے گی۔اس لئے ایوان صدر میں عارف علوی کے اعزاز میں الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ملک میں صدارتی الیکشن 9 مارچ کو ہورہے ہیں۔حکومتی اتحاد کی جانب سے آصف علی زرداری صدارتی امیدوار ہیں۔

اپوزیشن سنی اتحاد کونسل کی جانب سے صدارتی امیدوار پشتون خوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی حمایت کی جارہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے متنازع صدر

عارف علوی بھی پاکستان کے ان صدور میں سے شامل تھے جنھوں نے اپنی مدت پوری کی، ان کی آئینی مدت تو ستمبر 2023 میں پوری ہوگئی تھی۔ تاہم صدارتی انتخابات تک اگلے چھ ماہ ان کے پاس یہ منصب رہا۔
ناقدین عارف علوی پر آئین کی خلاف ورزی اور 77 آرڈیننس جاری کر کے ایوان صدر کو ’آرڈیننس فیکٹری‘ میں تبدیل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
انھوں نے پیکا آرڈیننس جاری کیا، جس پر بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا اور اس کو آئین سے متصادم قرار دیا۔
ان کا دور صدارت تنازعات سے بھرپور رہا ۔ صدر عارف علوی نے حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار شہباز شریف سے بطور وزیر اعظم حلف لیا۔ تاہم اس سے قبل جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف قومی اسمبلی سے قائد ایوان منتخب ہوئے تھے تو صدر عارف علوی نے حلف لینے سے انکار کردیا تھا اور اس کی وجہ سے صحت کی خرابی بتایا گیا ۔
پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران صدر عارف علوی کا ایک اور تنازع اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو مزید اختیارات دینے والے دو اہم بلوں پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 حکام کو ریاست اور فوج کے خلاف اقدامات یا اظہار کی صورت میں لوگوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا زیادہ اختیار دیتے ہیں۔
سنہ 1996 میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو عارف علوی بھی اس تنظیم سازی کا حصہ رہے۔ وہ پارٹی کے ’نئے پاکستان‘ کے منشور کے مصنفوں میں بھی شامل ہیں۔
تحریک انصاف میں ان کا سیاسی سفر صوبائی صدر سے شروع ہوا۔ انھیں سنہ 1997 میں سندھ کا صدر بنایا گیا۔ سنہ 2001 میں وہ مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
سنہ 2006 میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے اور سنہ 2013 تک اس عہدے پر رہے۔ یہی وہ دور ہے جب تحریک انصاف مینار پاکستان میں جلسہ عام کے بعد تبدیلی کا نعرہ لگا کر پورے ملک میں پھیل گئی۔
انھوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن سنہ 1997 میں کراچی کی امیر آبادی کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن پر مشتمل صوبائی حلقے سے لڑا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔
سنہ 2002 کے انتخابات میں انھوں نے پی ایس 90 سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزمائی کی لیکن انھیں شکست ہوئی، یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عمر صادق کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر عارف علوی چھٹے نمبر پر آئے، اگلے یعنی 2008 کے انتخابات کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں وہ ڈیفنس، کلفٹن اور صدر کے علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 250 سے مقابلے میں آئے۔ جہاں ان کا مقابلہ خوش بخت شجاعت سے تھا۔
ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو کامیاب قرار دیا گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اورعارف علوی نے حلقے کے لوگوں کو متحرک کیا اور ڈٹ گئے۔
عارف علوی کا احتجاج رنگ لایا اور الیکشن کمیشن نے 45 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ ووٹنگ کا حکم جاری کیا اور نتیجے میں عارف علوی مجموعی طور پر 76 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔
عمران خان نے جب انتخابات نتائج کو مسترد کرکے سنہ 2014 میں اسلام آباد میں کنٹینر کے ساتھ دھرنا دیا تھا تو حکومت سے مذاکرات کی ٹیم میں عارف علوی بھی شامل تھے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے انھیں ایک بار پھر اسی نشست سے میدان میں اتارا گیا، جس پر نئی حلقہ بندیوں کے تحت این اے 247 بنی تھی جس پر انھوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو شکست دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔
تحریک انصاف جب سنہ 2018 کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو صدارت کا منصب عارف علوی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا، ان سے قبل اس منصب پر کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین فائز تھے۔
 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یقیناً سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف  میں فعال کردار اد کریں گے، فی الحال تو ان پر دو سال کی آئینی پابندی ہو گی لیکن پسِ منظر میں رہ کر وہ اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے۔