ویب ڈسک: پاکستان میں منعقد ہونے والے 12ویں اور سب سے بڑے عام انتخابات میں عوام نے روایات کو توڑتے ہوئے روایتی طور پر الیکٹیبلز کے بجائے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایتی امیدواروں کی اکثریت کو کامیاب کروایا ہے۔
خیبرپختونخوا میں عوام کی طرف سے منتخب کیے گئے رہنمائوں کی اکثریت سابق ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل ہونے کے ساتھ استھ نئے چہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ کے پی کے سے قومی اسمبلی کی 44 میں سے 33 نشستوں کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی 113 میں سے 64 نشستوں کے غیرسرکاری نتائج سامنے آ چکے ہیں۔
قومی اسمبلی کی 30 اور صوبائی اسمبلی کی 64 نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایتی امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب امیدواروں میں گوہر علی خان، عمر ایوب خان، علی امین گنڈاپور، علی اصغر خان، اسد قیصدر، شہرام خان، ڈاکٹر امجد علی کے علاوہ سابق خاتون ممبر قومی اسمبلی شاندانہ گلزار اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامران بنگش اور مشتاق احمد غنی بھی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی بڑی تعداد کی فتح میں خیبرپختونخوا میں اس جماعت کی مقبولیت کی توثیق کے ساتھ ملک کی سیاسی صورتحال پر دوررس اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ سینئر صحافی شاہد حمید کا وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کامیاب امیدواروں کے سامنے بہت سے راستے ہیں جس میں انٹراپارٹی الیکشن کے بعد پارلیمنٹ پہنچنے کا موقع بھی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ لوگ اپنا وزیراعظم لا سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے حلف اٹھا کر 3 دنوں میں کسی پارٹی میں شامل بھی ہو سکتے ہیں۔ سینئر صحافی عرفان کے مطابق پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہی نہیں اس لیے خواتین وغیرمسلم اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں سے محروم رہیں گے۔ پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدواروں کی تعداد 73 سے بڑھنے پر آزاد حیثیت میں اپنا وزیراعلیٰ منتخب کر سکتے ہیں۔
ماضی کے انتخابات کے برعکس پاکستان پیپلزپارٹی نے اس دفعہ پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر فتح حاصل کی۔ پاکستان پیپلزپارٹی غیرسرکاری نتائج کے مطابق اب تک 1 نشست جیتنے کے ساتھ 3 پر سبقت حاصل کر چکی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابات میں غیرمعمولی مشکلات کا سامنا پڑا اور وہ خیبرپختونخوا سے قومی وصوبائی اسمبلی کی صرف 1،1 سیٹ جیت سکی۔
عام انتخابات میں متعدد موروثی سیاستدان ناکام ہوئے جن میں سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن سرفہرست ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے 2 بیٹے اور 1 بھتیجا اپنے آبائی ضلع ڈی آئی خان ودیگر 3 اضلاع سے قومی وصوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ناکام ہو گئے۔ غیرسرکاری نتائج کے مطابق مولانا فضل الرحمن کو اب تک صرف بلوچستان ضلع پشین سے قومی اسمبلی کی نشست پر برتری حاصل ہے۔
سابق وزیر دفاع ووزیراعلیٰ پرویز خٹک، ان کے 2 بیٹے اور ایک بھتیجا اپنے آبائی ضلع نوشہرہ سمیت قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ناکام ہوئے ہیں۔ ضلع چارسدہ سے سابق وفاقی وزیر آفتاب احمد شیرپائو اپنے بیٹے سکندر حیات شیرپائو سمیت قومی وصوبائی اسمبلی کی 1،1 نشست سے انتخابات میں ناکام ہوئے۔
آفتاب احمد خان شیرپائو نے دیرینہ سیاسی حریف ایمل ولی خان کے ساتھ قومی اسمبلی کی دونوں سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کی تھی اس کے باوجود ایمل ولی خان اور آفتاب احمد خان پی ٹی آئی کے مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔ لکی مروت کے بااثر سیف اللہ خاندان کے انور سیف اللہ خان بھی ٹانک کی قومی اسمبلی کی نشست پر ناکام ہو گئے۔
آخری اطلاعات تک سلیم سیف اللہ خان اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شیر افضل مروت کے درمیان انتخابات کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور اور ثمرہارون بلور بھی عام انتخابات میں ناکام ہو گئے۔